* خوش ہے تو میرے بنا تو مر گیا میں بھی & *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
(پہلے مجموعہ "رہگزر" ١٩٩٨ سے)
خوش ہے تو میرے بنا تو مر گیا میں بھی نہیں
بے نیازی تجھ میں ہے تو سر پھرا میں بھی نہیں
تو رخ_ مہتاب ہے تو بد نما میں بھی نہیں
رس تری آواز میں تو بے سرا میں بھی نہیں
چاہتوں میں میری پنہاں ہیں حقیقی راحتیں
عشرتیں تجھ پر فدا ہیں تو گدا میں بھی نہیں
فخر کر خود پر مگر اے نازنیں اتنا نہ کر
تو دعاؤں کا صلہ تو بد دعا میں بھی نہیں
اب تخیل پر ترے قبضہ نہیں میرا تو کیا
رات بھر یادوں میں تیری جاگتا میں بھی نہیں
جس سبب سے شہر کی گلیوں میں تو مشہور ہے
ہو سبب چاہے وہی، ناآشنا میں بھی نہیں
صرف اک لغزش پہ میری قطع_ رشتہ مستقل
ہے فرشتہ تو ہی کب، ہاں بے خطا میں بھی نہیں
لوٹنا چاہے تووقت اب بھی ہے باقی، لوٹ آ
تو شریف النفس ہے، دل کا برا میں بھی نہیں
وہ بھی اپنی بات پر پوری طرح قائم رہا
اپنی ہٹ سے اک قدم پیچھے ہٹا میں بھی نہیں
اب کریں افسوس کیا جو بھی ہوا اچھا ہوا
ہو سکا میرا نہ تو، تیرا ہوا میں بھی نہیں
کاش تو مجبوریاں جاوید میری جانتا
ہے وفا خوں میں ترے تو بے وفا میں بھی نہیں
******* |