* نہ کبھی ہوا خفا تو *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
(متفاعللن فعولن)
نہ کبھی ہوا خفا تو
نہ مرا کبھی ہوا تو
نہ مزید اب ستا تو
مرے پاس لوٹ آ تو
کبھی بول کر نظر سے
مرا حوصلہ بڑھا تو
یہ کہے گا کب نہ جانے
میں ترا ہوں اور مرا تو
میں ترے بغیر کیا ہوں
ہے مرے بغیر کیا تو
مرا گھر پکارتا ہے
کہاں جا کے بس گیا تو
ملے ہم تو سب سنیں گے
میں ہوں لفظ اور نوا تو
ہے ثواب پیار میرا
ہے ثواب کی جزا تو
وہ ادا سے بولے "جاوید!
میں غزل، غزل سرا تو"
****** |