غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
تحقیق ہے یہ مشکل سچ ہے کہ فسانہ ہے
تاریخ کے کاغذ پر افسانہ بھی قصّہ ہے
صدیوں کی خطاؤں کو کس طرح بھلائیں ہم
جو لمحہ ملا ہم کو صدیوں کا ہی بچہ ہے
حق مانگنے والوں سے یہ پوچھ کے بھی دیکھو
کیا شے ہے حرام ان پر کیا انکا فریضہ ہے
گفتار ترے لب پر، خاموش زباں میری
وہ تیرا سلیقہ ہے، یہ میرا طریقہ ہے
لڑنے سے ہو فرصت تو منجدھار سے ٹکرائیں
ہیں جسکے کئی مانجھی یہ ایسا سفینہ ہے
اغیار کے باطل سے ہم پوری طرح غافل
اور حق پہ ہمارے اب اغیار کا پہرہ ہے
مطلوب ہیں کچھ وارث جاوید مجھے فورا
کر دوں میں عطا جنکو جو میرا خزانہ ہے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸