غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
غالب اگر ہو نفس تو کس کام کی ہے دوست
غالب اگر ہو روح تو ہی زندگی ہے دوست
تابع اگر خدا کی تو سچی خودی ہے دوست
اس زندگی کا حق ہے یہ جو دائمی ہے دوست
ایمان ہو، عمل بھی ہو، تلقین_حق بھی ہو
ہو صبر ساتھ میں تو یہ خوش قسمتی ہے دوست
میں سیدھا سادہ بندہ ہوں رہتا ہوں گانو میں
تیری زبان میرے لئے فارسی ہے دوست
میں ہی بڑھاؤں ہاتھ سدا کیوں تری طرف
میری انا پہ ضرب یہ اب آخری ہے دوست
کب خود سری کسی کو بناتی عظیم ہے
سب سے بڑا کمال تری عاجزی ہے دوست
جاوید تو بلائے تو آؤنگا آؤں گا دوڑ کر
خفگی یہ میری تجھ سے فقط عارضی ہے دوست
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸