غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
کیوں رشتہء مجاز کا اک سلسلہ سا ہے
وہ آشنا نہیں ہے تو کیوں آشنا سا ہے
جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ کاش سچ نہ ہو
وہ بے وفا نہیں ہے تو کیوں بے وفا سا ہے
خاموشیاں چہار طرف، منجمد ہوا
یہ موسم_ فسردہ مرا ہمنوا سا ہے
میری طرح اسے بھی کسی کا ہے انتظار
ہے شام پر خمار سا، مجھ پر نشہ سا ہے
میں کھینچتا ہوں پاس تو جاتا ہے دور وہ
کہتا زباں سے کچھ نہیں لیکن خفا سا ہے
نعم البدل کہاں ہے بھلا تیرا، تیری یاد
البتہ زیست کے لئے اک آسرا سا ہے
کیسی ہوس ہے جس نے مٹا دی شگفتگی
لہجہ ہر ایک شخص کا کیوں کھردرا سا ہے
توڑا ہے اس نے دل ترا جاوید اور اب
کہتا ہے اس کا جرم یقینآ ذرا سا ہے
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸