غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
کچھ اور سوچنے کی اجازت نہیں مجھے
یادوں سے تیری پل کی بھی مہلت نہیں مجھے
پھرتا ہوں تجھ کو ڈھونڈھتا میں گھر میں رات دن
تیرے بغیر رہنے کی عادت نہیں مجھے
وہ کیا گیا چلی گئی جینے کی آرزو
اے موت اب تو تجھ سے بھی نفرت نہیں مجھے
خوابوں پہ اعتماد نے رسوا کیا سدا
پھر بھی حقیقتوں سے محبت نہیں مجھے
بر وقت لوٹ آیا مرے پاس حسن_ظن
اب آپ سے کوئی بھی شکایت نہیں مجھے
جتنا دباؤ, ہوتی ہیں اتنا ہی بے لگام
خود اپنی خواہشات پہ قدرت نہیں مجھے
رشتوں کو قطع کرنے کا اب وقت آ گیا
محبوب اب تری بھی ضرورت نہیں مجھے
دنیا یہ کہہ رہی ہے محبت میں ہوں فنا
محبوب کو گلہ ہے محبت نہیں مجھے
ہے اقتدار پاس تورکھ پاس_اقتدار
مجھ سے نہ ڈر کہ شوق_حکومت نہیں مجھے
جاوید میں تو پہلے سے بدنام ہوں بہت
کوئی مزید خواہش_شہرت نہیں مجھے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸