غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
تمہارے پاس نہ جانے جواز کیا ہوگا
کوئی تمہاری طرح بے نیاز کیا ہوگا
یہ سوچ سوچ کے راتیں اداس رہتی ہیں
کہ بے رخی کا خدا جانے راز کیا ہوگا
ترے خیال_مسلسل سے دل دھڑکتا ہے
جہاں میں تجھ سا کوئی دلنواز کیا ہوگا
میں تجھ سے ملتے ہی بام_فلک پہ ہوتا ہوں
ترے نیاز سے بڑھکر نیاز کیا ہوگا
قمر نے پوچھا کہ جب میں حسین ہوں اتنا
تو سوچ پھر کہ رخ_ماہناز کیا ہوگا
وہ جال بنتا ہے ایمان کے لئے ہر وقت
نفاق جیسا کوئی جعلساز کیا ہوگا
جو خود ہی نفس کے ہاتھوں پہ ہوگیا بیعت
وہ بیعتوں کا ہماری مجاز کیا ہوگا
ہے معترف ترے کردار کا جہاں جاوید
اب اس سے بڑھ کے کوئی امتیاز کیا ہوگا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸