غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے
اداس دل کو سر_ شام ہونا پڑتا ہے
خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں
تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے
ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام
ہمیں کو مورد_ الزام ہونا پڑتا ہے
قلم ہیں کتنے جو تلوار بن کے جیتے ہیں
یہاں قلم کو بھی نیلام ہونا پڑتا ہے
یہی ہے ارض و سماوات کا اصول، ہمیں
کبھی سبب کبھی انجام ہونا پڑتا ہے
ہر اک گناہ گواہی سے بچ نہیں سکتا
کبھی تو رجم سر_ عام ہونا پڑتا ہے
ہدف پہ لگنے سے پہلے یہ ہوتا ہے جاوید
کئی نشانوں کو ناکام ہونا پڑتا ہے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸