غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
انسان ہے تو حسن کا شیدائی کیوں نہ ہو
تکمیل آرزو کا تمنائی کیوں نہ ہو
آتی ہے لے کے ساتھ ہمیشہ نسیم کو
اے صبح تیری خوب پذیرائی کیوں نہ ہو
مانا لباس اسکا نہیں قیمتی مگر
وہ بھی جواں ہے اس میں بھی رعنائی کیوں نہ ہو
ہم کو نہ دیکھتی ہو کسی کی بھی جب نظر
اے یار ایسا لمحہء_ تنہائی کیوں نہ ہو
رعنائیوں کے بیچ میں کیا سادگی کا کام
محفل میں پھر بتا تری رسوائی کیوں نہ ہو
انسانیت! یہی ہے مرا آج کا سوال
مظلوم کی کہیں کوئی شنوائی کیوں نہ ہو
عیسیٰ یہی ہے وقت اتر آسمان سے
مردہ زمیں پہ تیری مسیحائی کیوں نہ ہو
جاوید آج دل کا نکل جانے دے غبار
محفل میں چاہے کتنی بھی رسوائی کیوں نہ ہو
+++++++++++++