* ہو نہیں پائی ہے نقصاں کی تلافی اب ت *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہو نہیں پائی ہے نقصاں کی تلافی اب تک
بھول پائے نہیں گزرا ہوا ماضی اب تک
بس گئے شہر میں، فطرت نہیں بدلی اب تک
ایسا لگتا ہے کہ انسان ہے وحشی اب تک
اب یہ جانا بھی کوئی جانا ہے جانے والے؟
ہے ترے ہونے کی ہرایک نشانی اب تک
اوراب کیا اسے مردہ ہی بنا ڈالوگے
کم وہی کیا ہے جوکچھ دل پہ ہے گزری اب تک
وقت! تھا کون سا "لمحہ"* جو "خطا"* کر بیٹھا
کیوں یہ جاری ہے تباہی پہ تباہی اب تک
'تونے مانگا ہی نہیں مانگنے والوں کی طرح'*
ورنہ رہتی نہیں خالی تری جھولی اب تک
اے قیامت! تو ابھی دور ہی رہنا کچھ روز
ہم تو چڑھ پائے ہیں بس پہلی ہی سیڑھی اب تک
تیری محنت میں نہیں کوئی کمی اے جاوید
ہو نہیں پائی ہے الله کی مرضی اب تک
ڈبل انورٹڈ کوما سے ایک مشہور شعر میں ان الفاظ کی طرف اشارہ ہے، اور سنگل انورٹڈ کوما سے یہ اعتراف ہے کہ اس مصرعے کی ترکیب میں ایک اور مشہور شعر سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے-
|