* برداشت جو نہ ہو سکے ایسی سزا نہ دے *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
برداشت جو نہ ہو سکے ایسی سزا نہ دے
رستے کے عین بیچ میں ساتھی دغا نہ دے
یہ میرے دل کی آگ کو بھڑکائے گی، خدا!
تنہائی دے ہی دی ہے، یہ موج_ صبا نہ دے
ہو گمرہی نصیب میں جس کے تمام عمر
ایسی حیات سے ہے یہ اچھا خدا نہ دے
آنے میں چارہ گر ترے تاخیر ہو گئی
مرجائیں اب سکوں سے، دعا کر، دوا نہ دے
ہے مہر کن قلوب پہ کس کو ہے کیا خبر
کوئی بچے نہ ایسا جسے تو صدا نہ دے
ڈرتے ہیں تیری سادہ مزاجی سے ہم بہت
جو کچھ کمایا تو نے کہیں وہ گنوا نہ دے
جاوید لاکھ کیوں نہ چھپائے وہ دل کی بات
پیچھا نہ اسکا چھوڑنا جب تک بتا نہ دے
***** |