* کیسے بیمار ہو گئے ہیں ہم *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
کیسے بیمار ہو گئے ہیں ہم
خود سے بیزار ہوگئے ہیں ہم
آج چبھتے ہیں انکے سینے میں
پھول تھے، خار ہو گئے ہیں ہم
تیری نفرت کا پاس رکھیں گے
اب روادار ہو گئے ہیں ہم
مانگ لو آکے جس قدر چاہو
غم کا انبار ہو گئے ہیں ہم
پہلے سرمایہء بہا ٹھہرے
اور اب بار ہو گے ہیں ہم
کیا ہے اخلاق اور کیا کردار
صرف بازار ہو گئے ہیں ہم
شر پرستوں کے لمبے ہاتھوں میں
صرف اوزار ہو گئے ہیں ہم
اب سلا پاؤگے نہ اورہمیں
دیکھو بیدار ہو گئے ہیں ہم
کاش جاوید وہ ملیں ہم سے
مستقل پیار ہو گئے ہیں ہم
**** |