* ہمیشہ ذہن نشیں یہ رہے، ضروری ہے *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہمیشہ ذہن نشیں یہ رہے، ضروری ہے
کہ ہاتھ آئی ہے جو زندگی، عبوری ہے
اشارہ ہوتے ہی کرنوں سے تیز دوڑونگا
ہمارے بیچ فقط لمحہ بھر کی دوری ہے
مری طرف متوجہ ہو تو کہوں آگے
کہی ہے بات جو میں نے ابھی ادھوری ہے
فرشتہ ہوتا تو تقدیس فطرتا* کرتا
ہوں عبد_ خاص، عبادت مری شعوری ہے
* fitratan
حقیقتوں کی حقیقت پہ لاکھوں پردے ہیں
تلاش کب ابھی جاوید تیری پوری ہے
|