* میری دیوانہ صفت آنکھوں کی پروا کر *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
میری دیوانہ صفت آنکھوں کی پروا کرلے
روز دیدار پہ دیدار کا وعدہ کر لے
میری نظروں کے تعاقب سے نہیں بچ سکتا
چھپ کے کتنا بھی کہیں پردے پہ پردہ کر لے
راستہ کہتا ہے منزل نہیں ملنے والی
پیر کہتے ہیں مشیت پہ بھروسہ کرلے
اے مرے دل مرے ہاتھوں کو اشارہ کافی
کام دن رات کرینگے تو ارادہ کر لے
خواب! آنکھوں کو پریشان رکھے گا کب تک
یا حقیقت میں بدل یا کہیں پردہ کر لے
آج مشکل ہے تو کل کا ہی پتہ کس کو ہے
فکر کر آج کی یا پھر غم_ فردا کر لے
زند گی ہوتی ہے جاوید سکوں کی خاطر
ہر تمنا کو بھلا کر یہ تمنا کر لے
**** |