* ایک پر کیف قیامت کا تقاضا ہے فقط *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ایک پر کیف قیامت کا تقاضا ہے فقط
زلزلہ جیسی محبّت کا تقاضا ہے فقط
سامنے ہوکہ نہ ہو مجھ کو نظر آئے مگر
وقت_ خلوت میں بھی جلوت کا تقاضا ہے فقط
لذتیں اور بھی آئیں گی ترے ساتھ کے ساتھ
آج دیدار کے شربت کا تقاضا ہے فقط
میں دکھاؤں گا کہ حق کیسے ادا ہوتا ہے
تجھ سے اک حرف_ شکایت کا تقاضا ہے فقط
ایک قطرہ بھی ترا مجھ پہ سمندر جیسا
یا خدا قطرہ_ رحمت کا تقاضا ہے فقط
نذر جس کے میں کروں اپنا کوئی ذوق_ لطیف
ایسے اک لمحہء فرصت کا تقاضا ہے فقط
ہو کے آزاد میں یہ سوچ سکوں میں کیا ہوں
چند لمحات کی مہلت کا تقاضا ہے فقط
شوکت و ثروت و دولت کی طلب کیوں ہوگی
دل کو ایمان کی حدّت کا تقاضا ہے فقط
تجھ سے جاوید میں کیا مانگوں ہے کیا پاس ترے
چند اقدارکی خدمت کا تقاضا ہے فقط
****** |