عطا تری ، مری سانسوں میں کار فرما ہے
میں زندہ ہوں یہ ترے فضل کا کرشمہ ہے
ترے وجود کی آہٹ کی معترف ہے خرد
ترے حضور سماعت بھی محوِسجدہ ہے
میں دیکھتا ہوں تو آ نکھوں کا کچھ کمال نہیں
ترا ہی نور بصارت میں جلوہ فرما ہے
میں عبد ہوں مرے جیسوں کا کوئی حد و حساب
تو لا شریک ہے اور کون تیرے جیسا ہے
ترے ہی ذکر سے معمور ہے حیات مری
تری صفات میں ایماں مرا فریضہ ہے
نظامِ عدل کو قائم وہ قوم کیسے کرے
جو ظالموں کے لئے ایک ترنوالہ ہے
مُطیع ہیں ترے بندے نظامِ باطل کے
یہ کیسا وقت غلاموں پہ تیرے آیا ہے
ترا عذاب بھی رحمت سے کم نہیں یارب
سرِ غرور عذابوں کے بعد جھکتا ہے
ہمارا عزم بھی اب تعزیت کے قابل ہے
یہ حمد اپنے لئے کیا ہے؟ ایک پرسہ ہے
عزیزؔ کا ہے یہ اِصرار تو نظر آئے
نہ جانے کیسے وہ اوقات اپنی بھولا ہے
***************