غزل
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
جب بھی اسے محوِ ناز دیکھا
دنیا سے بے نیاز دیکھا
غنچے کی زباں سمجھ میں آئی
جب اس کو سخن طراز دیکھا
صف ہاۓ مژہ پہ اس نظر کو
خود مصروفِ نماز دیکھا
پھیکی لگی بخت کی سیاہی
جب دیدۂ سرمہ باز دیکھا
آنچل کے مہین پہلوؤں سے
اک جلوۂ دل نواز دیکھا
اس کو دیکھا تو اس جہاں میں
جینے کا نیا جواز دیکھا
کر کے حیلے بہانے ہم نے
وہ دلبرِ حیلہ ساز دیکھا
ایمانِ دل و نظر کے صدقے
وہ حُسنِ کرشمہ ساز دیکھا
بیمارئ دل سے ہار کر بھی
ہمدرد نہ چارہ ساز دیکھا
محرومِ خمارِ وصل تھا وہ
جو عاشقِ پاک باز دیکھا
آفت ایسی چمن پہ آئی
ہر دستِ دعا دراز دیکھا
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸