* کچھ کام آسکوں میں کسی بدنصیب کے *
کچھ کام آسکوں میں کسی بدنصیب کے
جو گِر رہا ہے مجھ کو اُبھرتا دکھائی دے
بے خوف ہوکے جی سکے ملت کا ہر جواں
کوئی بھی اب کسی سے نہ ڈرتا دکھائی دے
وہ رزمگاہِ زیست میں سینہ سپر رہے
ایڑی رگڑ رگڑ کے نہ مرتا دکھائی دے
ہو جورِ ناروا کا نہ کوئی کہیں شکار
ہر سمت عدل و داد کا چرچا دکھائی دے
جس کے غرورِ ناز سے نالاں ہیں اہلِ دل
جاہ و جلال اُس کا اُترتا دکھائی دے
کردی ہے جس نے نیند زمانے کی اب حرام
بامِ عروج سے مجھے گِرتادکھائی دے
روشن کروں زمانے کو برقی میں اِس طرح
جگنو کی طرح دل مرا جلتا دکھائی دے
**** |