* باغِ حیات پھولتا پھلتا دکھائی دے *
باغِ حیات پھولتا پھلتا دکھائی دے
وہ مثلِ گُل ہمیشہ مہکتا دکھائی دے
اقبال اُس کا یونہی ہمیشہ رہے بلند
وہ مِثلِ مہر و ماہ چمکتا دکھائی دے
بامِ عروج پر رہے ہر وقت تابناک
حُسن و شباب اُس کا نہ ڈھلتا دکھائی دے
اُس کے سوا کسی پہ نہ میری نظر پڑے
ہر سو اُسی کا جلوۂ زیبا دکھائی دے
گلچیں کو گُل کے حال پہ آئے گا تَب تَرَس
’’ جب چشمِ گُل سے خون اُبَلتا دکھائی دے‘‘
آدابِ بزمِ شوق کا جس کو نہیں لحاظ
اُس سے کہو یہاں سے وہ چلتا دکھائی دے
یارب کچھ ایسا کردے کہ میری نگاہ میں
جو بھی بکھر رہا ہے سنورتا دکھائی دے
**** |