غزل
زمیں کی بات الگ، آسمان ہی میں نہیں
ترا شریک کسی بھی جہان ہی میں نہیں
سلامتی پہ میں اپنی تو فخر کرتا ہوں
مگر یہ غم کہ میں اپنے مکان ہی میں نہیں
بہت دنوں سے تیری یاد کو ترستے ہیں
بہت دنوں سے تخیل اڑان ہی میں نہیں
بہت سے لفظ تو اڑتے رہے فضاؤں میں
مگر وہ بات جو اس کے بیان ہی میں نہیں
چراغ کتنے جلائے ہیں میں نے راہوں میں
نہیں جلائے تو اپنے مکان ہی میں نہیں
تمام عمر گزاری ہے دشتِ امکاں میں
مگر گمان کا ممکن گمان ہی میں نہیں
سوال ایسا کہ جس کا جواب بن نہ سکا
مثال ایسی کہ دونوں جہان ہی میں نہیں
کہانیوں میں ہوں زندہ میں آج تک عادل
کوئی نشان مرا خاندان ہی میں نہیں
********************