غزل
بیاضِ جاں کے صفحوں پر وہ جس کا نام لکّھا تھا
اسی کے واسطے اس دل نے ہر پیغام لکّھا تھا
مری قسمت کے لکّھے کو مٹانا چاہتا تھا وہ
مرے ہاتھوں کے رکھاؤں میں جس کا نام لکّھا تھا
کہ ٹوٹے دل کو لے کر اب مجھے بھی لوٹ جانا ہے
جو گزرا شہر میں تیرے وہی انجام لکّھا تھا
کبھی جو بات آتی ہے تو ہنس کر ٹال دیتا ہے
مگر میں جانتا ہوں خط مرے ہی نام لکّھا تھا
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں دربدر پھرتے ہوکیوں عادل
کہاں تقدیر میں اپنی کبھی آرام لکھا تھا
*************