غزل
ابھرتے ڈوبتے جذبوں میں آس رہنے دوں
ذرا سی دیر اسے اپنے پاس رہنے دوں
نظر میں ریت کا صحرا سما گیا ہے جب
اگی ہے ذہن میں میرے جو گھاس رہنے دوں
زمیں سے کٹ کے میں اپنی تو جی نہیں سکتا
مرے نصیب میں مٹّی نہ باس رہنے دوں
اگر ہو بس میں تو دریا کو خشک کرڈالوں
لبوں پہ اس کے ہمکتی سی پیاس رہنے دوں
درامید پہ آئے گا ایک دن کوئی
تو پھر یقین کو رکھ لوں، قیاس رہنے دوں
یہ کیا کہ ہر گھڑی ہنستا ہی رہتا ہوں عادل
کبھی تو دل کو میں اپنے اداس رہنے دوں
*************