donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Umar Farahi
Title :
   Charlie Hebdo Aur Israel

چارلی ہیبڈو اور اسرائیل


عمر فراہی


،پشاور ،پیرس اور دنیا میں ہونے والے مختلف دہشت گردانہ کارروائی کے بعد میڈیا کا ایک خاص طبقہ بحث  کارخ اسلامی انتہا پسندی کی طرف موڑ دیا ہے اور پھر اسی موقع کی تاک میں بیٹھی ہوئی غیر سرکاری تنظیمیں جو اپنے احتجاج اور مظاہروں کی تجارت سے پیسے بٹورنے کا کاروبار کرتی ہیں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر حکومت پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔ پیرس میں میگزین چارلی ہیبڈو کے جوکر نما صحافیوں کے قتل کے بعد چالیس ملکوں کے سربراہان کی ریلی اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتناکہ یہ سوچنا اہم ہے کہ انہیں ضرور کہیں نہ کہیں جزیرہ برموڈہ میں قید دجال کے حکم سے ایک ابلیسی اور دجالی ضابطے کا پابند بنایا جارہا ہے اور دنیا کے یہ تمام سربراہان جن میں کئی سوپر پاور کا درجہ بھی رکھتے ہیں ۔اس طاقتور ادارے اور شخصیت کے انکار کی جرات بھی نہیں کرسکتے ۔اس ریلی سے بظاہر دنیا کے سامنے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ لوگ ظلم کے خلاف دکھی اور سنجیدہ ہیں اور دنیا کو اصلی خطرہ فحاشی ،بد عنوانی ، قتل،عصمت دری اور نشے کی لعنت سے نہیں ہے بلکہ اصل خطرہ اسلام اور مسلمان ہیں۔دوسرے لفظوں میں دجال کو اصل خطرہ اسلامی نظام اور خلافت سے ہے۔کیوں کہ دجال منکرات کے جن ہتھیاروں سے دنیا کی بھولی بھالی عوام کو اپنی حمایت کے لئے مجبور کرے گا اس کا جواب صرف اور صرف اسلامی خلافت اور شرعی قوانین کی بالادستی میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب انہوں نے نیو ورلڈ آرڈر کی منصوبہ بندی کی تو انہیں مسلم معاشرے سے ہی بغاوت اور مزاحمت کا سامنا رہا ہے اور پھر انہوں نے مختلف حیلے اور بہانے بنا کر پاکستان سے لے کر افغانستان ،ایران اور عراق، صومالیہ غزہ اور لیبیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور دجالی طاقتوں کی اس مزاحمت میں ابھی تک تقریباً ایک کروڑ بچے بوڑھے جوان اور خواتین بھی شہید ہوئے ہیں اور حال میں مصر کے اندر مرسی حکومت کے خلاف جو کچھ بھی ہوا وہ اسی سازش کا حصہ ہے اور دنیا کے طاقتور ملکوں کے سربراہان جو کہ بد معاش قسم کے صحافیوں کے قتل کی ہمدردی میں پیرس کی ریلی میں شامل ہوئے ان کے جذبات اور احساسات کو اس وقت کوئی ٹھیس نہیں پہنچی جب ایک ملک کے فوجی سربراہ نے تقریباً تیس سے چالیس عورتوں کو ہتکڑیاں لگا کر جیل بھیج دیا اور انہیں دس دس سال قید کی سزا بھی سنادی گئی ۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ یہ خواتین اس احتجاج میں شامل تھیں جس کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب مرسی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔


مغربی حکمراں اپنی اس غلطی کا اعتراف کریں یا نہ کریں مگر کہیں نہ کہیں انہیں یہ احساس بھی ضرور ہے کہ انہوں نے یہودی سرمایہ داروں اور دجال کی مدد اور اعانت سے جس لبرل اور مذہب بیزار خوشنما معاشرے اور شدادی جنت کی تعمیر کے لئے اپنی عوام کا خون اور پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے اور جس کے ساتھ ان کا غرق ہونا بھی یقینی ہے اس پورے فساد کی جڑ یہودی اور اسرائیلی ہیں ۔اگر ہم یوروپ کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے اور ایک خاص میڈیا کے پروپگنڈے کو پورا یوروپ سمجھ رہے ہیں تو ہماری غلطی ہے ۔یوروپ کی اکثریت یہودیوں کے ذریعے پھیلائی گئی اس غلاظت سے بدظن اور نالاں ہے جیسا کہ عیسائیوں کے پوپ کا بھی بیان آچکا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے عقیدے پر حملہ کیا جائے ۔خود اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیرس حادثے کے بعد ایک ٹیلی ویژن خطاب کے دوران یہ اعتراف کیا کہ یوروپ میں یہود مخالف لہر پیدا ہو چکی ہے اس لئے یہودی اپنے حقیقی گھر اسرائیل واپس آجائیں ۔شکر ہے نیتن یاہو نے آر ایس ایس کی طرح یوروپ کے تمام عیسائیوں کو جو اصل میں بنی اسرائیل ہیں گھر واپسی کی دعوت نہیں دی ورنہ دونوں میں اصل اور نقل کی جنگ شروع ہوجاتی ۔دوسرے دن کے اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ فرانس کی حکومت نے ریلی میں شرکت کے لئے جہاں دنیا کے چالیس سربراہان مملکت کو شرکت کی دعوت دی ،نیتن یاہو کو دعوت دے کر یہ بھی کہا گیا کہ آپ کا نہ آنا ہمارے لئے بہتر ہوگا۔سوال یہ ہے کہ حادثہ پیرس میں ہوا ، قتل بھی پیرس کے اخبار چارلی ہیبڈو کے گستاخ صحافیوں کا ہوا تو پھر اس معاملے سے اسرائیل اور یہودیوں کا کیا تعلق ؟ اس کا جواب خود حملہ آور نوجوانوں نے یہودیوں کی ایک سوپر مارکیٹ میں چار یہودیوں کے قتل سے دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی اصلی دشمنی دجال اور دجال کے حمایتیوں سے ہے ،جنہوں نے اپنی دولت اور سرمایے کی طاقت سے دنیا کے ہر شعبے میں شاربوں ،رشدیوں اور چارلیوں کا جال بچھا رکھا ہے ۔کرن تھاپر نے ہندوستان ٹائمس ۱۸؍جنوری کے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ’’ یوروپ کے سترہ ممالک میں اگر کوئی ہولوکاسٹ کے تعلق سے سوال اٹھاتا ہے تو اسے جیل بھی ہو سکتی ہے ۔اسی لئے کوئی بھی اخباراور ناشر اس طرح کی کتابوں کو شائع کرنے کی جرات نہیں کرتا اس کا مطلب کہ یوروپ یہودیوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کے لئے سنجیدہ ہے ۔مگر انہیں مسلمانوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک طرف آپ آزادی اظہار رائے کی حد کا اعتراف بھی کرتے ہیں ،مگر ایک دوسرے طبقے کے خلاف اس کے انکار کی گنجائش پیدا کرکے تعصب کا مظاہرہ کیوں ؟‘‘۔


اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یوروپ اور فرانس کے سامنے آیت اللہ خمینی کے فتوے کی دستاویز بھی موجود ہے کہ مسلمان اپنے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی قبول نہیں کرسکتا اور اسلامی قانون میں شاتم رسول ﷺ کی سزا قتل ہے۔پھر بھی یوروپ اور فرانس میں ان گستاخ مصنفین کو مغلظات لکھنے کی آزادی ہے اور وہ انہیں پناہ دینے کا پابند ہے تو پھر یوروپ کے سیکولر قانون اور اسلامی قانون میں ٹکراؤکا پید اہونا بھی لازمی ہے۔اور یہ کہنا ہوگا کہ اخبار چارلی ہیبڈو کے نام نہاد صحافیوں پر حملے کی کارروائی دہشت گردی نہیں بلکہ سیکولر قانون پر اسلامی قانون کا حملہ تھا۔ہم جب اس موضوع کے دوسرے رخ پر غور کرتے ہیں کہ آخر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد غلام احمد قادیانی کا جو فتنہ ابھر کر سامنے آیا تھا اس نے ایک طوفان کی شکل کیوں اختیار کرلی اور یہود و مشرکین بار بار مسلمانوں کے رسولﷺ ان کی کتاب اور ان کے مخلص اور سنجیدہ حکمرانوں قائدین پر حملہ آور ہیں تو اس کی وجہ وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ ایک اسلامی انقلاب سے خوفزدہ ہیں ۔جیسا کہ یہود ہر دور میں اپنے نبیوں کی تحریک سے بھی خوفزدہ رہے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے قتل کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔

اکیسویں صدی میں اگر یہ فتنہ ایک بار پھر مسلمانوں کا پیچھا کررہا ہے تو اس کی وجہ ایک بار پھر پوری دنیا میں تحریکات اسلامی کی جد و جہد کا عروج ہے اور اکثر و بیشتر کچھ سیکولر ممالک کے مسلم حکمرانوں نے بھی یہودیوں کے ناپاک منصوبے کو ناکام بنادیا ہے۔ان مسلم حکمرانوں میں ضیاء الحق ،آیت اللہ خمینی ،شاہ فیصل،صدام حسین اورمہاتر محمدوغیرہ کی معمولی جد و جہد بھی شامل ہیں اور حال میں صدر طیب ارودگان نے ترکی کا جو نقشہ بدلا ہے اور خود مسلمانوں کی اکثریت جس طرح مغربیت سے توبہ کرتے ہوئے اسلام کی طرف رجوع ہے اور تمام تر سیٹا لائٹ کی ٹکنالوجی اور فوجی قوت اور لاکھوں ڈرون حملوں پر بلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی دنیا کے نقشے پر ایک بار پھر اسلامی خلافت کی بنیاد قائم ہو چکی ہے اور خود افغانستان سے پھر امریکہ کی اسی طرح گھر واپسی ہو چکی ہے جیسے کہ ماضی کی وکٹوریا اور گوربا چیوف نے توبہ کرلیا تھا ۔ ایسے میں دجال کا استقبال کرنے والے یا تو سر پیٹ کر ماتم کرسکتے ہیں یا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مسلمانوں کا مذاق اڑا کر ہی خوش ہو سکتے ہیں۔مگر کہتے ہیں کہ غلاظت اور برائی کی عمر بھی بہت کم ہوتی ہے ۔مگر جسے اللہ خود نہ باقی رکھنا چاہے ۔اس وقت زمین پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں زمین اپنے اوپر غلاظت کے بوجھ کو نگل رہی ہے اور دجال اپنے بنائے مصنوعی خاکوں اور کارٹونوں سے دنیا کو صرف وقتی ہنسی اور خوشی دے پائے گا ۔مگر جب روئے گا تو رونے اور ماتم کرنے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔سوال یہ ہے کہ ہم کن لوگوں کی مذمت کررہے ہیں اور کن لوگوں کے ساتھ ہیں ؟


عمر فراہی۔موبائل۔   09699353811 ای میل
 umarfarrahi@gmail.com


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574