donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Hindustan, Palestin Aur Israel


ہندوستان ،فلسطین اوراسرائیل


۱۹۵۰ء میںاسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعدرشتوںمیں جوتلخی آگئی تھی ؛ ہندوستان کی خارجہ پالیسی نے بڑی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتےہوئے اس کو دورکرننے کی کوشش کی اورفلسطین وہندوستان کے درمیان فاصلوںکے برف کو پگھلانے میں اس حدتک کامیاب ہوا کہ وہ پہلا غیرعرب ملک بن گیا جس نے ۱۹۷۴ء میں یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کرنےکاتاریخی فیصلہ کیا۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کی پُرجوش ملاقات والی تصویریں پوری دنیا میں بہت مقبول ہوئی تھی ۔تنظیمآزادی فلسطین (پی ایل او)کے سربراہ یاسرعرفات سابق وزیراعظم ہنداندراگاندھی کواپنی بہن کہتے تھے،راجیوگاندھی سے بھی یاسرعرفات کے بہت ہی خوشگوارتعلقات تھے۔ یاسرعرفات نے ہندوستان کا کثرت سفرکیاہے اورہندوستان کووہ اپنا وطن ثانی مانتے تھے۔


صابررضارہبرمصباحی


مظلوم فلسطینیوں پرانسانیت سوز مظالم کےلئے عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کی تحریک سے ہندوستان کی علیحدہ گی نے دنیاکے انصاف پسندوںکو حیران کردیا۔گزشتہ سال غزہ میں ہزاروںافرادکے قتل کے خلاف عالمی عدالت میں پیش کردہ قراردادکی حمایت کرنے والوںمیں ۸؍یورپین ممالک کے علاوہ ۴۱؍ممالک شامل ہیںجبکہ ہندوستان نے ووٹنگ سے غیرحاضررہنے کا فیصلہ کیاجودراصل اسرائیل کی درپردہ حمایت تھی ،ووٹنگ سے قبل اسرائیلی وزیراعظم اورنریندرمودی کے درمیان ہوئی گفتگو نے سب کچھ بے غبارکردیا حالاںکہ ہندوستان کافلسطین کے ساتھ تاریخی روابط رہےہیں اورماضی میںہرموڑپرہندوستان نے فلسطین کاساتھ دیاہے ۔بابائے قوم گاندھی جی اورملک کے پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہرلال نہروسے لے کر اندراگاندھی اورراجیو گاندھی تک فلسطین کے تئیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہمدردی پر مبنی رہی ہے۔اگرچہ ہندوستان اورفلسطین کے تعلقات اپنے اندرنشیب وفراز کی کئی پرت رکھتے ہیں ا س کے باوجودقطعی طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کا دوست ملک رہاہے ۔اسرائیل کے قیام کےمحض چندبرسوں بعدیعنی ۱۷؍ستمبر۱۹۵۰ء کو ہندوستان نے اسرائیل کوباضابطہ طورپر تسلیم کرکے اپنے عرب دوست کو محو حیرت کر دیاتھاکیوںکہ ہندوستان کا یہ فیصلہ اپنے عرب دوست ممالک کی توقع کے بالکل برعکس تھا ۔کیوںکہ یہی وہ ہندوستان تھا جس نے۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ میں قیام اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دیاتھااوراس کے بعدجب بھی یہودیوںکی جانب سے فلسطینیوںپرظلم وستم کیا جاتا ہندوستان کی جانب سے مضبوط آواز بلندکی جاتی تھی اور اپوزیشن جماعتیں کانگریس پہ الزام لگاتی تھیں کہ وہ مسلم ووٹ بینک کیلئے اسرائیل کی مخالفت کرتی ہے۔
رشتوںکے اس نشیب وفرازسے بآسانی یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کی خارجہ پالیسی اسرائیل اورفلسطین کے معاملہ پرتذبذب کی شکارتھی لیکن اس کے عملی رویے فلسطین کی تائیدکررہے ہیں یہی وجہ ہےکہ ہندوستان کوہمیشہ سے فلسطین کا حامی تسلیم کیاجاتارہا اورگاندھی جی نے بھی یہودی سلطنت کی کھل کرمخالفت کرتے ہوئے فلسطینیوںکی وکالت کی ہے ۲۶؍نومبر۱۹۳۸ء میں گاندھی جی کے ہفتہ واررسالہ ’ہریجن‘ میں شائع ان کےمضمون کا ایک اقتباس حقیقت کے چہرے کو مزیدروشن کرسکتاہے ۔مضمون کا عنوان تھا The Jews in Palestine یعنی یہودفلسطین میں ‘ اس مضمون میں گاندھی جی نے لکھاتھا کہ ’’مجھ سے اکثرعرب۔یہودی مسئلے پر رائے پوچھی جاتی ہے۔ یہود بے شک اس وقت اپنا کوئی ملک نہیں رکھتے‘ مگر انہیں زور زبردستی سے فلسطین پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے، یہ بات انصاف کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی اسی لیے فلسطین میں عربوں کو بے دخل کر کے وہاں یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال مجھے نہیں بھاتا۔‘‘


فلسطین سے متعلق گاندھی جی کے نظریہ کے بعدیہ سمجھنا بہت سہل ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی خارجی پالیسی فلسطینیوںکے حق اوریہودیوںکے خلاف رہی ہے ۔اسے گاندھی جی کی یہودی مخالف نظریہ کی کرشمہ سازی کہی جاسکتی ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے فلسطینیوں کی حمایت کو سرکاری پالیسی بنا لیا۔ سیکولرمزاج پنڈت نہرو مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے ساتھ چل نہیں سکے۔

۱۹۵۰ء میںاسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعدرشتوںمیں جوتلخی آگئی تھی ؛ ہندوستان کی خارجہ پالیسی نے بڑی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتےہوئے اس کو دورکرننے کی کوشش کی اورفلسطین وہندوستان کے درمیان فاصلوںکے برف کو پگھلانے میں اس حدتک کامیاب ہوا کہ وہ پہلا غیرعرب ملک بن گیا جس نے ۱۹۷۴ء میں یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کرنےکاتاریخی فیصلہ کیا۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کی پُرجوش ملاقات والی تصویریں پوری دنیا میں بہت مقبول ہوئی تھی ۔تنظیمآزادی فلسطین (پی ایل او)کے سربراہ یاسرعرفات سابق وزیراعظم ہنداندراگاندھی کواپنی بہن کہتے تھے،راجیوگاندھی سے بھی یاسرعرفات کے بہت ہی خوشگوارتعلقات تھے۔ یاسرعرفات نے ہندوستان کا کثرت سفرکیاہے اورہندوستان کووہ اپنا وطن ثانی مانتے تھے۔

اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگا،بات ۱۹۸۳ء کی ہے جب ہندوستان میں غیروابستہ ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کررہا تھا اس میں شرکت کرنے کیلئے تمام غیروابستہ ممالک کے سربراہان موجودتھے اس میں یاسرعرفات بھی شریک تھے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ اس کانفرنس کے جنرل سکریٹری تھے اوراس کانفرنس میں صبح کے سیشن میں فیدل كاسترو صدر تھے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی صدر تھیں۔ صبح کے سیشن کے بعد ایک خاموش شوراٹھا کہ یاسر عرفات بہت ناراض ہیں اور فوری طور پر اپنے جہاز سے واپس جانا چاہتے ہیں،جب یہ خبر اندرا گاندھی تک پہنچی تووہ اپنےساتھ فیدل كاسترو کو بھی لیتی آئيں پھرفون کر کے یاسر عرفات کو بلا لیاگیا۔ فیدل کاسترونے ناراض عرفات سے کہا کہ آپ اندرا گاندھی کو اپنا دوست مانتے ہیں یا نہیں۔ اس پریاسرعرفات نےجواب دیا کہ دوست نہیں بلکہ وہ میری بڑی بہن ہیں۔ اس پر كاسترو نے تپاک سے کہا تو پھر چھوٹے بھائی کی طرح برتاؤ کرو اور کانفرنس میں حصہ لو۔عرفات مان گئے اور شام کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔

یاسر عرفات اپنے ہوائی سفر کو بہت خفیہ رکھتے تھے اور میزبان ملک کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ وہاں آنے والے ہیں۔ ان کا اکثر ہندوستان آنا ہوتا تھاجب بھی یاسرعرفات یہاں آتے تھے پہلے سے اپنی آمدکی خبرنہیں دیتےتھے ایک دو گھنٹے پہلے ہی خبر آتی تھی کہ وہ آ رہے ہیںاس کے باوجود اندرا گاندھی انھیں ہمیشہ ریسيو کرنے ایئرپورٹ پر جاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ کہہ کر پکارتے تھے۔اندراگاندھی کے علاوہ راجیوگاندھی اورکمیونسٹ لیڈرسیتارام یچوری سے بھی ان کے خوشگوارمراسم رہےہیں کئی بارملاقاتیں ہوئی ہیں ۔لیکن ۱۹۹۱ء میں سویت یونین کے خاتمےکے ساتھ فلسطین اورہندوستان کے رشتوںپرگہن لگنا شروع ہوگیا اورکانگریس کی نرسمہارائوکی حکومت نے باضابطہ طورپرہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کے قیام کومنظوری دےدی ۔نرسمہارائوکے اس فیصلہ سےایک بارپھرعرب دوست ممالک اورخود ہندوستان کے انصاف پسندطبقے خصوصاً ملک کی خارجہ پالیسی پر نظررکھنے والوںکوزبردست دھچکالگا۔اس کے بعد اسرائیل سے رشتے تیزی کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے اوراسی قدرفلسطینی مظلوموںکے حق میں ہندوستان کی حمایت کمزورپڑتی گئی ۔ ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کے قیام کے محض چھ برسوںبعد ۱۹۹۷ء میں اسرائیلی صدرایزر ویزمان نے ہندوستان کادورہ کیااورا س دوران وزیراعظم دیو گوڑا نے اسرائیل سے میزائل خریدنے کا معاہدہ کر لیاا سکے بعدجیسے ہی بی جے پی مرکزمیں برسراقتدارآئی ایسالگاکہ ہندوستان اوراسرائیل تعلقات کوجیسے پرلگ گئے ہوں۔

اسرائیل نے ہندوستان میں سرمایہ کی ریل پیل کی بنیادپر اسے اپنا دوست بنا نے کی شاطرانہ چالیں چلتارہا جوہنوزجاری ہے ۔اسرائیل کی عیاری کام آئی اوردھیرے دھیرے فلسطین کے ساتھ ہندوستان کی جھوٹی ہمدردی بھی ختم ہوتی گئی۔یہی نہیںغزہ میں پچاس دنوں تک جاری رہنے والی اسرائیلی خون ریزی کے خلا ف پوری دنیا میں آوازیں اٹھ رہی تھیں اوراسرائیلی بربریت کی کھلے عام مذمت ہورہی تھی اس وقت بھی مودی حکومت کی زبان گونگ رہی اور اپوزیشن نےجب پارلیمنٹ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرنی چاہی تو مودی حکومت نےاسے نامنظورکردیا۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج کےجواب  میں وزیر خارجہ سشما سوراج کاکہنا تھاکہ اسرائیل سے ہندوستان کے دوستانہ مراسم ہیں اور حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے دوستانہ تعلقات پر کوئی آنچ آسکے ۔ ۲۵؍ستمبر۲۰۱۰ء کو جب راجیہ سبھا کے رکن اورسابق مرکزی وزیرمنی شنکرائیرنے راجیہ سبھا میں ایک سوال پوچھا حکومت بتائے کہ کیا وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں قتل کیے جانے والے نہتے شہریوں کی بڑی تعدادکو—گولڈ سٹون فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے مطابق حماس کی جانب سے مارے جانے والوں کے برابر خیال کرتی ہے؟ اس پروزارت خارجہ نے اسے ایک ریاستی راز قرار دیتے ہوئے سوال کی اجازت نہیں دی۔ ۲۵؍ستمبر۲۰۱۰ء کو منی شنکرایئرنے انڈین ایکسپریس کو دئے انٹرویومیں اس سوال پر تنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ’ کب سے انڈیا اور فلسطین کے تعلقات ریاستی راز بن گئے ہیں؟ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہم فلسطینی مقصد کے بڑے چیمپین رہے ہیں۔‘

خیال رہے کہ ۲۰۰۳ء میں شیرون کے تاریخی دورے سے قبل فنانشل ٹائمز نے اپنے ملک کےہندوستان کے ساتھ روابط کو ’’دنیا کے خفیہ ترین روابط‘‘ کہہ کر بیان کیا تھا۔گویاہندوستان اورفلسطین کے تعلقات کواسرائیل نگل گیا اب توہندوستان کے ساتھ صنعت وتجارت کے ساتھ دونوںکےمابین انٹیلی جنس کا تعاون اس تعاون سے کہیں زیادہ ہے جو ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ہے۔ہندوستان کے سیکڑوںخصوصی فوجی دستے اسرائیل میں تربیت حاصل کر چکے ہیں۔اسرائیل نے ہندوستان کویہ باورکرانے کی بھی کوشش کی کہ دونوںممالک کے مسائل یکساں ہیں اس لئے دونوںکویکساں پالیسی اپنانی ہوگی ۔آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی کئی باراسرائیلی فوج کے طریقہ کارکی تعریف کرتےہوئے ہندوستان کو اسرائیل سے سبق سیکھنے کی صلاح دے چکےہیں ۔شاید یہ موہن بھاگوت کی نصیحت کاہی جادوتھاکہ کانگریس نے ممبئی تاج ہوٹل حملہ کے بعد فوج کے خصوصی دستہ کو اسرائیل میں تربیت کیلئے بھیجا تھا حالاںکہ یہ زمینی سچائی ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے دہشت گردی کے تمام تارخود اسرائیل سے ملتے ہیں ۔ممبئی حملہ میں بھی اسرائیل کا کرداررہا ہے جسے ملک کے میڈیانے خاموشی کے ساتھ ہی سہی اجاگرضرورکیاتھا ۔

۲۰۰۳ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے دورہ ہند کے دوران ان کے ڈپٹی، یوسف لپید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ایک ’’زبانی و تجریدی‘‘ محور تخلیق ہو رہا تھا۔لپید نے صحافیوں کو آگاہ کیاتھاکہ ’’تینوں فریقوں کے مابین کسی رسمی معاہدے کی عدم موجودگی کے باوجود تینوں کے مشترکہ مفاد میں ہے کہ وہ دنیا کو سب کے لیے اور زیادہ محفوظ جگہ بنائیں۔ اس محور کی تشکیل کو امریکی حمایت حاصل ہے۔لہٰذاتجریدی سطح پر ہم ایسا محور تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘ اسرائیل کے ڈپٹی وزیر اعظم کی جانب سے ایسے محور کی تخلیق کے اعلان سے چار ماہ قبل ہی انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا ایسے اتحاد کی تجویز دے چکے تھے۔آٹھ مئی۲۰۱۳  کو امریکہ کی یہودی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے مشرا نے کہاتھاکہ ’’امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا جیسی جمہوریتوں پر مبنی ایک ’قلب‘ کی تشکیل سے ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا اتحاد سیاسی منشاء کا حامل ہو گا اور یہ دہشت گردی کی اکسا دینے والی کارروائیوں کا جواب دینے کے لیے بے باک فیصلے کر سکے گا۔انہوںنے اپنی بات میں وزن پیداکرنے کیلئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’دہشت گردوں اور آزادی پسندوں کے مابین فرق ڈھونڈنا ایک بھونڈی منطق کا پروپیگنڈہ ہے یعنی ایک اور مغالطہ جس کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بنیادی وجوہات کو ختم کر کے ہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔انڈیا، امریکہ اور اسرائیل دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ ان کا ’’مشترک دشمن‘‘ ہے اور انہیں ’’مشترکہ ایکشن‘‘ کی ضرورت ہے۔جولائی ۲۰۰۲ ءمیں لال کرشن اڈوانی بھی اس قسم کے خیالا ت کا اظہارکرچکے تھے۔ انہوںنےفاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’اب تک ہونے والی دہشت گردی، جس کا ہم نے سامنا کیا ہے، (گیارہ ستمبر۲۰۰۱ءکو نیویارک میں اور۱۳؍ دسمبر۲۰۰۱ء کو ہونے والاپارلیمنٹ پر حملہ) اس کا منبع ایک ہے، اور اس ایک منبع کا کہنا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔‘‘

اسے حالات کی ستم ظریفی سے ہی تعبیرکیا جاسکتاہےکہ کل تک ہندوستان جسے مظلوم سمجھتا رہا اوراس کے حق کی قسمیں کھاتارہا اسی کیلئے وزارت خارجہ کا ترجمان۲۰۰۲ء میں شمعون پیریز کے دورۂ ہند کے موقع پر ’سرحدپاردہشت گردی‘ کا لفظ استعمال کررہاتھا اورکہہ رہاتھا کہ دہشت گردی کے اسرائیلی تجربہ سے سیکھنا ہندوستانیوں کیلئے بڑا فائدہ مندہے۔ رنگ بدلتے رشتوںکے درمیان ایسا وقت بھی آیاجب ۲۰۰۹ء میں اسرائیل نے انڈین ہوم لینڈ سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی میں تعاون کی پیشکش کی تو مہاراشٹر کی کانگریس حکومت نے ماہرین کے ایک وفد کو اسرائیل بھیجا تاکہ وہ عملی تجربہ حاصل کر سکے۔ سابق وزیر مملکت برائے کامرس اور انڈسٹری نے فروری ۲۰۱۰ء میں تل ابیب میں ایک تجارتی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’اسرائیلی ہوم لینڈ سکیورٹی کا سسٹم انڈیا سے کہیں آگے ہے اور انڈیا کو آپ کے تجربے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم دوست ملک اور تجارتی اتحادی ہیں ، ہمارے تعاون کی بنیاد مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے عفریت سے نپٹنے کے لیے مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘

ہندوستان اوراسرائیل کی بڑھتی قربت کے پیش نظرممکن تھاکہ لوگ فلسطین سے متعلق ہندوستان کے تعلقات پرحتمی رائے قائم کرلیتےاورہندوستان کوفلسطین کے دشمنوںکی فہرست میں شامل کرلیتے عین اسی دورمیان وزیراعظم منموہن سنگھ فلسطین اورہندوستان کے تعلقات کو تاریخی قراردیتےہوئے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے فلسطین کے دعوے کی بھر پور حمایت کا اعلان کردیا ،منموہن سنگھ صدر محمود عباس کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز مقاصد کی حمایت کی ہےمیں آپ کو اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔ہندوستان نے ہمیشہ ایک خودمختار، آزاد اور مستحکم فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو اور جو واضح طور پر تعین شدہ سرحدوں کے اندر اسرائیل کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکے۔وزیراعظم کے اس مکتوب کو اقوام متحدہ میں ہندوستان کےمستقل نمائندے ہردیپ سنگھ نے صحافیوں کو یہ خط پڑھ کر سنایاتھا۔
بہرحال ایک بارپھر مرکزمیں بی جے پی کا قبضہ ہے اوراسرائیلی رشتوںمیں مٹھاس لانے کی ہرممکن کوشش جاری ہے۔ مودی حکومت کی تشکیل کے بعد صدرجمہوریہ پرنپ مکھرجی کو سویڈن، بیلاروس، اسرائیل اور نائجیریا اورافریقی ممالک کے دورہ کی فہرست بھیجی گئی تھی لیکن صدرجمہوریہ نے اسرائیل جانے سے انکار کر دیا اورفہرست میں فلسطین جانے کی شرط رکھی تھی ۔ کانگریس میں اندرا گاندھی سے لے کر راہل گاندھی تک کی تین نسلوں کے ساتھ بطور سیاستدان کام کر چکے صدر پرنب مکھرجی کےا س اقدام کو ماہرین نےنہرو۔گاندھی کے نظریاتی فلسفہ سےجوڑکردیکھاتھا لیکن حالات اس نازک موڑپر جہاں یورپین پارلیمنٹ سمیت دیگریورپی ممالک یہودی ظلم وستم کے خلاف اسرائیل کوعالمی عدالت میں کھڑنے کی مہم چلا رہی ہو؛ہندوستان کااقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ سے غیرحاضررہنا انصاف پسندوںکومایوس کرگیا۔ووٹنگ سے قبل اسرائیلی وزیراعظم اور نریندرمودی کے دورمیان ہوئی گفتگوکے انکشاف کے بعدیہ پوری طرح واضح ہوگیا کہ فلسطین کے تئیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی یکسرتبدیل ہوگئی ہے ۔کل تلک بابائے قوم گاندھی اورپنڈٹ نہروجسے غاصب اورظالم تصورکرتے تھے اوربرملا اس کا اظہاربھی کرتے تھے آج انہیں کے ملک کا وزیراعظم نظریاتی طورپران کا باغی ہوگیا ہے۔ہندوستان کو ہرگزیہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل ایک دشمن قوم ہے اوروہ عالمی دہشت گردی کا جنم داتا ہے لہٰذا دوستی میں اس قدرہوش نہ کھوبیٹھے وہ دوستی کی آڑمیں ملک کی سلامتی کوہی رہن کے طورپراپنے پاس رکھ لےاگرایسا ہوا توپھر ہندوستان کودوسری مرتبہ گوروںکا غلام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اس لئے دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ظلم وناانصافی کی شدت کے مخالفت کی جائے،مظلوم اورسچ کی حمایت کی جائے اوریہی سیکولرہندوستان کاوطیرہ رہاہے۔

 

(مضمون نگاروزنامہ انقلاب پٹنہ میں سب ایڈیٹرہیں)
sabirrahbar10@gmail.com
9470738111

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 539