donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mansoor Alam Qasmi
Title :
   Agar Ab Bhi Na Sambhale To

 اگر اب بھی نہ سنبھلے تو۔۔۔۔


   منصورعالم قاسمی  


      ایک شکاری کو شکار کا بہت شوق تھا ،ایک دن اس نے سب سے پہلے پرندوںکے پسندیدہ دانے کی معلومات حاصل کی پھر خرید کر ڈال دئیے اور جال بچھا دیا،دانوں کے لالچ میں پرندے جال کی پرواہ کئے بغیر نیچے اتر آئے اور دانے چگنے کے لئے آپس میں لڑنے لگے کہ اسی درمیان شکاری نے جال کھینچ دیا ،اور سارے پرندے پھنس گئے ۔حیرت و استعجاب کی بات تو یہ ہے کہ جال میں پھنسنے کے باوجود ایک دوسرے کی چونچ سے دانہ چھیننے کے لئے ابھی تک آپس میں لڑ رہے تھے ۔شکاری نے انتہائی مسرت بھرے انداز سے جال کو اٹھایا اور گھر کی طرف چل پڑا ،اتفاقاـ  پرندوں کے محافظ کی ایک تنظیم’’محافظ طیور،،کی نظر شکاری پر پڑی ،اس نے شکاری کو روکا اور کہا :پرندوں کو پکڑنا اور قید کرنا جرم ہے ،تمہیں جیل بھی ہو سکتی ہے ،،شکاری نے اطمینان سے جواب دیا :میں جانتا ہوں لیکن ان پرندوں نے جنگل میں آتنک مچا کر رکھا تھا ،اب دیکھو نا !جال میں پھنسنے کے باوجود ابھی تک کس طرح آپس میں لڑرہے ہیں ؟،،تنظیم کے صدر و سیکریٹری نے پرندوں کی طرف دیکھا اور شکاری کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا:واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے ،تم پرندوں کے شکاری نہیں بلکہ محافظ ہو ،،آج یہی صورت حال امریکہ اس کے حوارین (شکاری)،مسلمان ومسلم ممالک(شکار) اوراقوام متحدہ (تنظیم محافظ طیور)کا ہے ۔

     نائن الیون کا مجرم کون ہے ؟آج تک امریکہ واضح ثبوت پیش نہیں کر سکا ،ہاں اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جواز مل گیا ،۱۹۸۰؁  کی دہائی میں سویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے جس اسامہ بن لادن کو امریکہ نے مہرہ بنایا تھا ،  اس پر اور اس کی تنظیم القاعدہ پر الزام لگا کر پہلے تو صلیبی ملکوں کا اتحاد کیا پھر اقوام متحدہ کو اپنی حمایت میں کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،جس میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے،بچے یتیم ہوگئے ،عورتیں بیوہ ہوگئیںاور افغانیوں کو آپس میں دست و گریباں میں ہمیشہ کے لئے مشغول کر دیا۔عراق پر آتشی اور کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر امریکہ اور اس کے ہمنوائوں نے سب سے پہلے اس پر لا محدودبم برسا ئے اوراس کو کھنڈر بنا دیا، پھر ان کی راہ کا سب سے بڑا روڑا صدام حسین کو تحتۂ دار پر لٹکا کر اپنی پسند کے افراد کے ہاتھوں میں جھوٹی جمہوریت کااقتدار سونپ دیا ۔ امریکہ اپنی غلطی تسلیم کرلے یہ تو ممکن نہیں تاہم اس کا بغلی بچہ سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلئیر نے اب اعتراف کیا ہے کہ ’’عراق پر حملہ بھول تھی اور اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ،،لیکن کیا معافی مانگ لینا ہی کافی ہے؟ نہیں اوریقینا نہیں کیونکہ کسی کا باپ ،کسی کی ماں ،کسی کا شوہر ،کسی کی بیوی اور کسی کا بھائی اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔اور اسی عمل کا رد عمل یہ ہوا کہ عراق سے داعش نے جنم لیا بلکہ منصوبہ بند طریقے سے اس کو وجود میں لایا گیا تاکہ یہ سنی اور شیعہ کے نام سے آپس میں قتل و غارت میں مبتلا رہیں ،نتیجہ سامنے ہے روز دھماکے سے ،فائرنگ سے سینکڑوں جانیں تلف ہو رہی ہیں اور عراق اب مکمل خانہ جنگی کا شکار ہے ۔

      ملک شام جو گہوارۂ علم دین رہا ہے ،آج ہمہ وقت آسمانوں پراسدی اور روسی لڑاکو طیارے گڑگڑا رہے ہیں ،سینکڑوں کی تعداد میں یومیہ مہلک بم برسا ئے جارہے ہیں ،مائیں اپنے سینے سے اپنے خون جگر کو چمٹا کر گلیوں میں حواس باختہ دوڑتی ہیں اور چیحتی جاتی ہیں ’’یا رب ارحمنی‘‘اے ہمارے رب !مجھ پررحم فرما۔باپ اپنے نونہالوں کا ہاتھ تھامے دوڑتا ہے کہ خوف زدہ بچہ اپنے والد کو جھنجھوڑ کر سوال کرتا ہے ’’وین روح یا بابا‘‘ ہم کہاں جائیں گے اے میرے باپ!کہ اسی لمحہ اوپر سے بم گرا دیا جاتا ہے اورزمین معصوموں کے خون سے سرخ ہو جاتی ہے ،آسمان دھواں دھواں ہو جاتا ہے ،اب تک صرف روس نے ۴۲۰۰ سے زائدحملے کئے جس میں سے داعش پرفقط ۳۹۱ حملے ہوئے باقی سارے کے سارے بم عوام پر گرائے گئے ہیں ،تیس لاکھ افراد ایسے پناہ گزیں کیمپ میںزندگی گزار رہے ہیں جہاں معاش ،تعلیم ،صحت اور غذا کا سخت بحران ہے ۔امریکہ اور اقوام متحدہ نے مسئلہ شام کا حل نکالنے کیلئے دکھاوے کے لئے ہی سہی بیٹھک بھی کی لیکن عیار شکاری پھر چال چل گیا اور کہا :بشار حکومت کا خاتمہ سیاسی طریقے سے ہونا چاہئے ،انہوں نے عوام کا اعتماد کھو دیا ہے تاہم مزید کارروائی  نہیں کریں گے ۔در اصل امریکہ اور روس نہ داعش کا خاتمہ چاہتا ہے اور نہ بشار اسد کی حکومت کا، بلکہ پس پردہ دہشت گردی کو مزید فروغ دے رہا ہے ، آخر داعش کے پاس مختلف انواع و اقسام کے مغربی ساخت کے چھوٹے بڑے ہتھیارکہاں سے آرہے ہیں ؟راکٹ لانچر، طیارہ شکن توپیں ،مشین گنیں ،زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کون فراہم کر رہا ہے،  اتنی بڑی بڑی بکتر بندگاڑیاں کیسے چل رہی ہیں ؟

   صیہونی دہشت گرد روزانہ نہتھے فلسطینیوں کو قتل کر رہے ہیں ،۱۵ سالہ معصوم کے سینہ کو گولیوں سے چھلنی کر رہے ہیں ،۱۶ سالہ لڑکی کو ۹ ؍۹ گولیاں داغی جا رہی ہیں ،اگر سعودی عرب قانونی کاررائی کے بعد نمر النمرکی سزا پر عمل کرتا ہے تو امریکہ اوربان کی مون کا مذمتی بیان جاری ہو جاتا ہے لیکن فلسطین کے مسئلے پران کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں ۔  ۲۰۱۱؁ میں تیونس سے تحریک جمہوریت شروع ہوتی  ہے،پھر جمہوریت کے لئے معمر قذافی کو مرڈر ہوجا تاہے لیکن اسی جمہوری طریقے سے جب محمد مرسی مصر کے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں تو اسے فوجی طاقت سے معزول کر دیا جاتا ہے اورعراق ،لیبیا وغیرہ میں جمہوریت کے لئے بھونکنے والے یہاں خاموش ہو جاتے ہیں۔اقوام متحدہ ،امریکہ، اسرائیل اور دیگر یورپی ممالک کی دوغلی پالیسیوں کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے خطۂ عرب ،مسلم ممالک اور مسلمانوں کو معاشی ،اقتصادی ،تعلیمی اور ذہنی طور پر کمزور کرنے کا عزم کر رکھا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں دھماکہ ہواس کا تار انٹر نیشنل میڈیا بلا دلیل اسلامی ناموں والی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دیتا ہے شاید اس لئے کہ مسلمان دفاع کے پوزیشن میں آ جائیں اور نفس مسئلہ پر غور و فکر ہی نہ کر سکیں ،اسی لئے بار بار کہا بھی جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گردی کی مذمت کرے  اور افسو س ہمارے خود ساختہ کچھ رہنما اس حکم کو بجا بھی لاتے ہیں ۔ان کی ایک پالیسی یہ بھی ہے کہ مسلکی بنیادوں پر جال میں مقید پرندوں کی طرح  مسلم ممالک اور مسلمانوں کو الجھائے رکھو تاکہ امن و امان سے رہ نہ سکیں ، ایک دوسرے سے نفرت لگیں اور باہم خون خرابے پر بھی اتر آئیں ،تر و تازہ مثال نمر النمرکا واقعہ ہے ،اسے کس طرح مسلکی رنگ دینے کی کوشش کی جس رہی ہے ،ایٹمی طاقت پاکستان ہے جہاں مسلک و مشرب کے نام پرمسجدوں ،مدرسوں اور نماز جنازہ میں بھی خود کش دھماکے ہوتے ہیں ، حکومت بھی اپنے آقا کے کہنے پرکس طرح دہشت گردی کا الزام لگا کرمذہب پرستوں پر گولیاں چلوارہی ہے ۔!  اس لئے اب مسلمانوں کو ،مسلم ممالک کو اور خصوصاخلیجی ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ وہ دن دور نہیں ہے جس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا :عنقریب قومیں( دشمن )تمہارے اوپر چڑھ دوڑنے کیلئے تمہیں اپنی طرف ایسے بلائیں گی جیسے کھانے والا اپنے دسترخوان کی طرف بلاتا ہے،کسی نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں ،تمہاری تعداد اس وقت بہت زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حیثیت جھاگ کی مانند ہو جائے گی ۔۔ابودائود۔

(یو این این)

mansoorqasmi8@gmail.com          

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 491