donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aslam Jawed
Title :
   France Me Begunahon Ka Khoon Aur Auland Ka Mustaqbil


فرانس میں بے گناہوں کا خون اور اولاند کا مستقبل

 

ڈاکٹراسلم جاوید


صبح سویرے اخبارات اوردیگراطلاعاتی ذرائع کامطالعہ کرنا ہم صحافیوں کی زند گی کا پہلا کام ہے۔البتہ اخبارات کے صفحات پر بکھری ہوئی لاشوں ،بے گناہ انسانوں کے خون سے لالہ زار اوراق اور کسی کمزور وبے بس خاتو ن کی جبری عصمت دری کے بعداس کی ٹوٹی پھوٹی اور اذیت ناک حالت دیگرحساس انسانیت نوازوں کی طرح ہم صحافیو ں کو بھی اندر سے تڑپا دیتی ہے۔گزشتہ جمعہ کے روز روئے زمین کی جنت کہلا نے وا لے فرانس کے تار یخی شہر پیرس میں انجام دیے جانے والے دہشت گردانہ حملے ہمارے لئے ماضی کے تمام زخموں بھر بھاڑی پڑ گئے۔اب یہ زخم کب تک ہرا رہے گا اور اس کی ٹیسیں ہمیں کہاں تک بے قرار رکھیں گی اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ویسے تو 90کی دہائی سے ہی نسل کشی ،اجتماعی ہلاکتوں اوردہشت گردانہ کارروائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے اور اب تک اس من گھڑت جہادی سرگر میوں نے ساری دنیا کو لاشوں کی چیخ وپکار سننے اور تڑ پنے کا عادی بنادیا ہے ۔کوئی انسانیت دوست تجزیہ نگا ر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکہ بہادر کے ذریعہ کھیلی جانے والی خون کی ہو لی کا طرفدا ر کبھی نہیں رہا ہے اورامید ہے کہ آئندہ بھی اس قسم کی درندگی کی حمایت امن پسند دنیا کبھی نہیں کرے گی۔سر دست پیرس میں ہونے والے سلسلہ واردھماکوں ،خود کش حملوں اور دہشت گردانہ کارروائی پرمغرب کے انسانیت دوستوں نے کیا رد عمل ظاہر کیا ہے ،یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس کو رقم کردیا جائے تاکہ ان ہولناک درندگی کے اسباب ومحرکات کو وضاحت ہوجائے۔ہم کسی بھی قیمت داعش کی سرگرمیوں کو جائز نہیں کہ سکتے اور اس کی حمایت کے قائل ہیں ،بلکہ ہم نے ہمیشہ اس کی مذمت ہی کی ہے اورآئندہ بھی بے گناہوں کے قتل میں شامل گروہوں، تنظیموں اور قوتوں کی سخت لفظوں میں مذمت کر تے رہیں گے۔ دنیاکے تمام مسلم علماء مفتیان کرام اور فقہا نے داعش کی کی سرگرمیوں کو اسلام کے منافی کہا ہے اور بہتوں نے تو اس تنظیم کے اسلام دشمن ہونے کا فتویٰ بھی صادر کیاہے، جسے امریکہ برطانیہ ،جرمنی روس اور فرانس کے کثیرالاشاعت اخبارات نے انگریزی سمیت علاقائی زبانوں میں بھی شائع کیا ہے اوریہ بھی لکھا ہے کہ اسلام میں تشدد اور خون خرابہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔


بہر حال سوشل میڈیا کے دور میں ایک صحافی کے لیے صبح صبح اٹھ کر ٹوئٹر پر ایک نظر ڈالنا ایک عادت ہوتی ہے مگر کل ہفتہ کا دن ان چند دنوں میں سے تھا جب آپ پہلی ٹویٹ پڑھتے ہی چونک جائیں اور سوچیں کہ کاش یہ صبح ہی نہ ہوتی۔ جوں جوں مزید ٹویٹس پر نظر پڑتی گئی توں توں ان حملوں کی ہولناکی عیاں ہوتی گئیں۔کروڑوں ٹویٹس میں لوگ افسوس، دکھ اور خوف کے جذبات کا اظہار کررہے ہیں اور وہی پرانی بحث دوبارہ سے گرم ہے کہ کیا اسلام اس کا ذمہ دار ہے یا مسلمان اس کے پیچھے ہیں اور کیوں اور کیسے۔البتہ اس حملہ کیلئے سارے مسلمان ذمے دار ہوسکتے نہیں ہوسکتے، جیسے تمام عیسائی ناروے کے حملوں کے ذمے دار نہیں یا امریکہ اسرائیل اورخوداپنے ملک میںبشمول گوانتاناموبے جیل کے اندر مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار نہیںہے۔اس نے بھول کر بھی کبھی اسرائیلی دہشت گردی کیخلاف لب کشائی کی ہمت نہیں دکھائی۔یہ ساری باتیں آج بھی ٹوئٹرپر بدستور چل رہی ہیں۔


اسٹورٹ پِن فولڈ نے لکھاہے کہ میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اسلام پیرس حملوں کی وجہ نہیں ہے۔ جب آنرز بریویک نے ناروے میں 70 بچوں اور جوانوں کو ہلاک اور 319 کو زخمی کیا تو ہم نے تمام مسیحیوں کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا نہ ہی فوری طور پر یہ خیال آیا کہ سفید فام مسیحی مسلمانوں کومارنے کو آ رہے ہیں۔ جب آئرش رپبلکن آرمی نے برطانیہ میں حملے کیے تو ہم نے یہ گردانا کہ تمام آئرش کیتھولک ہمیں مارنے آ رہے ہیں مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ تو یاد رکھیں کہ اتنے ہی مسلمان ہیں جو خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی تنظیم سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے شام اور عراق سے فرار ہو رہے ہیں۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ مملکت اسلامیہ کے مقابلہ وہ جرمنی اور دیگر مغربی ملکوں کواپنے لئے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔بس اسی ایک مثال سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس قسم کی درندگی کی حامی نہیں ہے ،بلکہ اسلام کے نام پر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو اسلام کا کھلا دشمن تصور کرتے ہیں ۔پیرس میں جمعہ کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی کسی بھی مسلم ملک نے حمایت نہیں کی ہے ۔اس کے برعکس تمام اسلامی ممالک اس کی مذ مت کررہے ہیں۔


کرونا ایزرا پاریکھ نے ایک اور نقطے کی جانب اشارہ کیا کہ میں آج صبح پیرس کے حملوں کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھی ۔مگر مجھے اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ انھیں اتنی اہمیت دی گئی۔ پیرس بیشک ایک اہم جگہ ہے، مگر بیروت میں چند دن قبل ہونے والے دھماکوں کو اتنی اہمیت نہیں ملی، بغداد میں ہونے والے حملوں کو بالکل کسی نے اہمیت نہیں دی۔ آپ اگر تارکینِ وطن کے بحران پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ سب بھی انسانیت کے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا پیرس حملے ہیں۔ تو یہ صرف پیرس کے لیے ہی نہیں ،بلکہ ساری دنیا کی سلامتی کے لیے دعاؤں کا وقت ہے۔


چونکہ فرانسیسی صدر نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مرتضیٰ حسین نے لکھا ہے کہ دولتِ اسلامیہ نے مسلمانوں اور مغرب کے درمیان موجود رواداری کے دائرے کو تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا تو یہ حملے اسی ہدف کے حصول کا ایک حصہ ہیں۔ہاں یہاں یہ بات بھی یاد نہیں رہنی چاہئے کہ چارلی ہیبڈو جیسے بدنام زمانہ میڈیا ادارہ کی غیرمہذب اور شرمناک حرکت کے نتیجے میں کئی جنونی مسلم شدت پسندوں نے دہشت گردی کا مظاہرہ کیاتھا۔جب اس قسم کی واردات فرانس میںپہلے انجام دی جاچکی تھی پھر مسٹراولاند نے اسے فراموش کیسے کردیا اورفٹبال میدان کے علاوہ دیگر حساس مقامات پر سیکورٹی نظام میں لاپراوہی کیوں کی گئی۔


اس حوالے سے وکی لیکس نے ٹویٹ میں لکھاہے کہ دولتِ اسلامیہ کی حکمتِ عملی فرانس میں یہ ہے کہ وہ فرانسیسی حکومت کو مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر مجبور کرے، جس پر ایک تبصرہ کرنے والے ایڈریو ہبرڈ نے لکھاہے:تاکہ مسلمان دولتِ اسلامیہ کی جانب مائل ہوں۔


ان حملوں کے نتیجے میں نادر عتاشی کا  خیال ہے کہ’یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں کے عمومی موقف اور تارکینِ وطن کے خلاف موقف کی توثیق ہو گی۔ مگر افسوس کا مقام ہو گا اگر اس کے نتیجے میں تارکینِ وطن پر حملے شروع ہوتے ہیں جو خود اسی قسم کی سفاکی سے فرار ہو کر یوروپ پہنچے ہیں۔


اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈین ہولوے نے لکھاہے جن کی ٹویٹ کو ہزاروں افراد نے شیئر کیاہے ’جو لوگ تارکینِ وطن کو ان حملوں کا الزام دے رہے ہیں کیا وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یہ وہ سفاک لوگ ہیں جن سے یہ لوگ فرار ہو کر یہاں پہنچ رہے ہیںاور اس سب کے درمیان پیرس سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز دل ہلا دینے والی ہیں مگر اس میں بھی جعلسازی اور جھوٹ کی آمیزش نظر آتی ہے جو کہ بہت خطرناک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی کسی بھی ویڈیو یا تصویر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی اصلیت ضرور پرکھی جائے۔پیرس کی ایک بھیانک رات کے بعد دہشت گرد تنظیم آئی ایس نے کم از کم 200 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حملوں کا نشانہ محض فرانس نہیں ہے۔ یہ دن فرانس، یورپ اور مغرب کے لیے ’بلیک فرائی ڈے‘ یا سیاہ جمعہ ثابت ہوا ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ’پیرس‘ کے مختلف علاقوں میں ہونے والے سلسلہ وار حملے دراصل آئی ایس یا داعش کی طرف سے ہمارے طرز زندگی اور سیاسی، سماجی اور انسانی سطح پر ہمارے آزادی کے تصور کے خلاف جنگ کا اعلان تھا۔ یہ پیرس کے حملے یورپ کے دل پر خنجرزنی سے کم نہیں ہیں۔ یہ آزادانہ زندگی کے تصور پر کاری ضرب ہیں۔ یہ حملے فرانسیسی ریاست پر قاتلانہ وار تھے جو جدید اور وسیع پیمانے پر نگرانی کی صلاحیتوں کے باوجود اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکا۔ یہ فرانس کے سیاسی منظر نامے پر قتل کا ارتکاب تھا۔ فرانس اب خود کو الگ تھلگ کر کے عالمگیریت سے دستبردار ہونا چاہے گا۔ 13 نومبر کے بھیانک خواب کا سیاسی فاتح فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ ہو جائے گی اور غیر مقبول صدر فرانسوا اولاند سب سے بڑے شکست خوردہ۔

(یو این این)


موبائل:09891759909


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 534