donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Asna Firdaus
Title :
   Daure Hazir Aur Hamara Moashra

دورِ حاضراور ہمارا معاشرہ


اسماء فردوس


    ایک دور ایسا تھا جب بچوں سے لیکر بڑوں تک سب اخلاق کے پیکر ہواکرتے تھے۔ اب دورِ حاضر میں مسلم معاشرہ کئی خرابیوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ ظلم وزیادتی ، بے حیائی ، بے ا یمانی ، جیسی برائیاں معاشرے میں  عام  ہوگئی ہیں جس کی اہم وجہ مغربی تہذیب ہے۔ جس برق رفتاری کے ساتھ مغربی تہذیب ہماری تہذیب کو متاثر کررہی ہے اس سے معاشرہ کئی مسائل کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ ٹیلیویژن ، انٹر نیٹ اور ماڈرن انفارمیشن ٹیکنا لوجی کے ذ ریعہ مغربی کلچر پر وان چڑھ رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہماری سوچ میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں ہیں جیسے کہ فیشن کے نام پر بے حیائی ، بے شرمی اور بیہودگی کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

    پہلے کے نوجوان بزرگوں کی نصیحتوں کو توجہ کے ساتھ سنا کر تے تھے۔ ان سے بات کرتے وقت نظریں نیچی ہواکرتی تھیں۔ آج بے دلی سے ان کی بات سنی جاتی ہیں اور آنکھ سے آنکھ ملاکر گفتگو کی جاتی ہے ،ہر بات کا جواب دیا جاتا ہے، بد زبانی عام ہوگئی ہے اورنوجوان بزرگوں کا احترام کرنے کے بجائے گستاخی کرنے لگے ہیں۔ پہلے نوجوان نہ صرف اپنے والدین کا بلکہ ان کے ہر حکم کا  احترام کیا کرتے تھے لیکن آج والدین کے ساتھ ہی بحث کی جاتی ہے۔ ان کی نصیحتوں کو زہر سمجھا جاتا ہے اور ان کے حکم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بیشتر نوجوان بدتمیز ہوگئے ہیں، اپنے والدین کا احترام نہیں کرتے بلکہ آنکھیں دکھاتے ہیں۔ آج کی اولاد     والدین کی خدمت کو اپنا فرض نہیں بلکہ انہیں ایک بوجھ    سمجھتی ہے۔ میرے خیال سے نوجوانوں میں اخلاقی پستی کی اہم وجہ مغربی تہذیب ہے اور مغرب کی ظاہری شان وشوکت سے آج ہر شخص مرعوب ہے حتیٰ کہ بول چال ، اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا پینا ، رہن سہن ، تعلیم و تہذیب ، اخلاق وآداب ہر طریقہ ،ہر اصول ہر چیز مغربی کی پس خوردہ ہے۔ مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب اس قدر  اثر کررہی ہے کہ مغربی علوم فنون کی چھاپ صاف طورپر نظر آرہی ہے۔ اگر لوگ سوچتے ہیں تو مغرب کے دماغ سے، لوگ دیکھتے ہیں تو مغرب کی آنکھوں سے نیز اسی کے بخشے ہوئے افکار و خیالات پر زندگی کے مسائل کو حل کرنے  میں مصروف ہیں جو مغربی تہذیب کی عطا کردہ ہے۔

    مغربی ، مشرقی تہذیب سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ مغرب کا طرز فکر مشرق کے طرز فکر سے ، مغرب کے خیالات ، مشرقی خیالات سے بہت الگ ہیں۔ مغربی تہذیب میں مشترکہ خاندان کا رواج نہیں پایا جاتا ہے۔صرف ہم دو ہمارے دو کا نعرہ لگایا جاتا ہے ، شادی ہوتے ہی و الدین سے علیحدگی اختیار کرلی جاتی ہے لیکن مشرقی تہذیب مغربی تہذیب سے بالکل الگ ہے۔ مشرقی تہذیب میں مشترکہ خاندان کا رواج ہمارے آباء واجداد کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ داد ا، دادی ، نانا ،نانی ، چاچا ، چاچی ، تمام افرادِ خاندان ایک ساتھ مل کر ز ندگی گزارتے ہیں۔ ایک د وسرے کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے نوجوان مشرقی تہذیب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ والدین کے ساتھ رہنا اور ان کی نصیحتوں اور مشوروں کو اپنی زندگی میں دخل اندازی کا نام دے رہے ہیں۔  مغربی تہذیب اس قدر مشرقی تہذیب پر حاوی ہوچکی ہے کہ اس سے معاشرہ  بہت سی   برائیوں کی دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے۔

    آج بہت سے لوگ فیشن اور لباس کی تراش خراش کو بلندی کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک رنگ و روغن ، سازو سامان کی افراط اور اسباب و لوازمات ، زندگی کی ترقی کے ضامن ہیں مگر یہ بات دنیا کے دوسرے لوگوں کیلئے صحیح ہو تو ہو لیکن مسلم معاشرے کیلئے درست نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کی عزت تو اس وقت ہوگی جب اسلامی شریعت ، اسلامی اخلاق ، اسلامی کردار ہوگا، وہ ہر لالچ سے پاک ہوگا۔ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھے گا۔ حرام اورحلال کو جاننے والا ہوگا۔

    آج کل دنیا داری اورمادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے۔ دلوں کے اندر دنیا کی محبت بیٹھ گئی ہے نوجوانوں سے لیکر عمر رسیدہ شخص بھی دنیاداری کے چکر میں لگاہوا ہے۔ گھروں کاماحول اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ حلال و حرام کا فرق ،صحیح اور غلط کا فرق جیسے انہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ والدین کا احترام کرنا آج کل کی نوجوان نسل مانو جیسے بھول ہی گئی ہے۔ نوجوانوں میں اخلاقی پستی کی اہم وجہ ماحول کا اثر ہے۔ جس ماحول میں بچہ آنکھ کھولتا ہے اس ماحول کا اثر ہے۔ اگر گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے تو بچہ پر اس کا غلط اثر ہوتا ہے۔ بچے کے ا ندر اخلاقی پستی ، بدکرداری جیسی کئی برائیاں جنم لیتی ہیں اور گھریلو ماحول دیندار اور ا چھا ہو تو اس سے بچے پرا چھا ا ثر ہوگا۔ والدین کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر معیاری تعلیم دیں اسکے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں، انہیں اچھی نصیحت کریں۔

    کہتے ہیں کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کا گہوارہ ہوتا ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو، دنیا کے رواجوں سے واقف ہو، دیندار ہو، تو بچہ بھی اپنی ماں سے اچھی پرورش وتربیت حاصل کرتا ہے۔ بچے گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں جس سانچے میں ڈھالو اس میں ڈھل جاتے ہیں۔ بچوں کو ہر وقت یہ نصیحت کرو کہ تم زندگی دنیا داری کے حساب سے گزارو لیکن ہمیشہ دلوں میں خوفِ خدا رکھو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا خوف تمہارے دل میں ہمیشہ باقی رہے گا۔

    والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ،اچھی تربیت اور اخلاق وکردار سے نوازیں ان کو ایک اچھا انسان بنائیں ، ان کے رگ وریشہ میں دین کی روح پھونکیں۔ ان کو غلط ماحول میں جانے سے بچائیں۔ کسی بھی قوم کاسب سے قیمتی سرمایہ بچے ہواکرتے ہیں۔ اس وقت وہ گود کا کھلونا ہیں مگر آگے چل کر وہی مستقبل کا معمار بنیں گے۔ ان کے کاندھوں پر قوم کی ذمہ د اری ہوگی تو وہ اس بارِ عظیم کو اچھی طرح اٹھاسکیں گے ورنہ انجام ظاہر ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎

تیراسرمایہ تیری دولت یہی اک چیز ہے
ایک پل کردارکی تعمیر سے غافل نہ ہو

    پہلے مائوں کی یہ خواہش ہوتی  تھی کہ ہماری اولادیں ایک اچھا انسان اور مسلمان بنیں، دین کی خدمت کریں، اس لئے ہوش سنبھالتے ہی وہ اپنے بچوں کو دینِ اسلام کی تعلیم دیتی ،حلال  و حرام کا فرق بتلاتی تھیں لیکن افسوس کہ آج کل اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ آج کی مائیں چاہتی ہیں کہ ہماری اولاد یں پڑھ لکھ کر گریجویٹ ہوں، سوسائٹی کے لحاظ سے اپٹوڈیٹ کہلائیں۔ ان کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ دینِ اسلام کی تعلیم سے بھی بچوں کو آراستہ کریں۔ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دیں۔ علامہ اقبال نے بہت خوب کہا ہے : ’’اگر مسلم قوم کو دنیامیں سربلند ہوکر جینا ہے تو اسے اسلامی اقد ار کو اپنانا ہوگا۔ ‘‘

    جب نوجوان نسل کے اندر نیکی پاکیزگی ، صلح صفائی ، خدمت واطاعت کیلئے آمادگی ہوگی تو وہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے ملے گی،  اپنے والدین کی خدمت کرے گی اور حقوق وفرائض کی ادائیگی پر نظر رکھے گی۔ گویا محبت ، شرافت اور انسانیت کے مجموعی پیکر کا نام آدمی ہے۔ بلند کرداری اور اخلاقی برترقی ، سلیقہ مندی اور فراخ دلی کے لحاظ سے انسانیت کا جوہر اور نکھر کر سامنے ا ٓئے گا۔

……………………………………

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 988