donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Meem Zad Fazli
Title :
   Fateen Bhi Ham, Fitna Bhi Ham, Fitno Ka Nishana Bhi Ham


فتین بھی ہم ،فتنہ بھی ہم ،فتنوں کا نشانہ بھی ہم


میم ضاد فضلی


علامات قیامت سے متعلق روایا ت کیلئے محدثین کرام نے اپنی کتابوں میں خصوصی باب باندھے ہیں اور فتنوں کے سراٹھانے کی ثقہ و مصدقہ روایات کتب احادیث میں بھری پڑی ہیں۔قصۂ مختصر یہ کہ آج ہم ہندوستانی مسلمان ہر چہار جانب سے جسمانی اور روحانی آزمائش اور فتنوں کے دائرے میں گھیرے جاچکے ہیں اور حد یہ ہے کہ امت کو توڑنے ،برباد کرنے اور آپس میں ہی کٹ مرکر نیست ونابود کردینے  کی سازشوں کا سلسلہ بے تحاشہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ مذہب کو نقصان پہنچانے ،دین کی شبیہ بگاڑنے اور مسلم سماج کو رسوا وذلیل کرنے کیلئے مخالف فکروں کوافرادی قوت بھی ہمارے ہی معاشرے سے مہیا ہورہی ہے اورہمارے دین و سماج کیخلاف ایک بڑالشکر جرار بھی ہمارے ہی سماج سے کھڑا کیا جارہا ہے۔    

ابھی ہم26جنوری 2018کو رونما ہونے والے دوسنگین سانحات ریاست گجرات کی ایک مسجد میں ازہر ہند مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے سفیر کے ساتھ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی بدسلوکی اور کیرا لہ میں ایک خاتون کے ذریعہ نماز جمعہ پڑھانے جیسے واقعات پر غور وفکر کرہی رہے تھے کہ 29جنوری 2018کوجامعہ ملیہ اسلامیہ میٹرو اسٹیشن کے قریب فتنہ شکلیت کے غنڈوں کے ذریعہ مبلغین ختم نبوت کے ساتھ کی گئی مارپیٹ کی خبر نے مزیدحیرت واستعجاب میں مبتلاکردیا ۔مجھے یقین ہے کہ ان واقعات سے دین ایمان اور امت کی سلامتی و بقاکیلئے فکر مند ہمارے اکابرین،اجلہ علماء کرام ،ملت اور دین اسلام کی حفاظت و اشاعت جیسے دعوتی مشن میں شامل تنظیموں ،دینی درس گاہوںاور مخلص ملی قائدین کو مجھ سے کہیں زیادہ تشویش اور فکر دامن گیر ہوگئی ہوگی۔ان کی راتوں کی نیندیں کافور ہوگئی ہوں گی اور دن کا سکون غارت ہوگیا ہوگا۔اس لئے کہ مولانا الیاس کاندھلویؒ کے ذریعہ ترتیب دی گئی تبلیغی جماعت اپنے اکابرین کے خلوص وللہیت اور دعائے نیم شبی کے طفیل آج دنیاکے 180ممالک میں اصلاح امت کا عظیم کارنامہ انجام دے رہی ہے،لیکناگر اس جماعت کے رضا کا ر و ں اور امیر حضرات کے ذریعہ علماء اور دینی مدارس کے ساتھ اس قسم کا غیر اخلاقی رویہ عام ہوگا تو پھر یہ امت اپنی اصلاح کیلئے اور شرابی وبے نمازی اور شروروفتن میں ملوث دین سے نابلد افراد کی ابھاگن بیویاں اپنے شوہروں کو راہ راست پر لانے کیلئے کس مرکز یا مشن میں شامل کریں گی۔میں بذات خود ایسے درجنوں نہیں ،بلکہ سینکڑوں افرادکو راست طور پر جانتا ہوں جن کا ماضی خود ان کے لئے اور ان کے اہل خانہ ،کنبہ وقبیلہ کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے سماج کیلئے شرمندگی و خفت کا سامان بن چکا تھا،ان کے سیاہ کارناموں اور کرتوت سے ساراعلاقہ عاجز اور تنگ رہا کرتا تھا ۔مگرجب اس قسم کے بیزار لوگوں کو تبلیغی جماعت سے وابستگی کی توفیق مل گئی تو ان کی ہی زندگیاں نہیں بدلیں ،بلکہ وہ اپنے جیسے سینکڑوں بگڑیلوں کی اصلاح کا وسیلہ بن گئے۔  ابھی میں ان واقعات پر  حیرت محو حیرت ہی تھا کہ عوامی رابطہ کے ایک گروپ میں کسی نعمان مکی صاحب نے میری تشویش اور غوروخوض کو صحیح سمت دیدیا ۔اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمایے۔انہوں نے لکھاہے کہ ’’ معتبر ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تبلیغی جماعت کے اختلاف کو مزید وسیع کرنے کیلئے آر ایس ایس نے اردو لکھنے پڑھنے والوں پر مشتمل ایک جماعت تشکیل دی ہے ،جس کا مقصد تبلیغی جماعت کے درمیان اختلاف کو مزید ہوا دینے کیلئے جانبین کے خلاف من گھڑت واقعات لکھ کر ایک دوسرے پر چھینٹا کشی کرنا ہے، اگر صلح صفائی کی بات بھی ہو تو فوراً مولانا سعد یا ان کے مخالف کی طرف منسوب کر کے جس میں ایک دوسرے کو سب و شتم کر رہے ہوں کوئی من گھڑت کہانی بناکر واٹس ایپ یا فیس بک پر پھیلائی جائے، تاکہ چنگاری بجھنے نہ پائے اور آگے کا کام ہمارے جماعت کے احباب تو کر ہی دینگے۔اسی طرح دارالعلوم کو بھی جماعت کی طرف منسوب کر کے نشانہ بنایا جائے۔اس حقیقت کو ساری دنیا جانتی ہے کہ دارالعلوم ایک عرصہ سے فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہے۔ اسلئے احباب سے گذارش ہے کہ ایسی کوئی خبر پھیلانے سے پہلے دس مرتبہ سونچیں۔

یہ باتیں جاننے کے بعد کئی ایسے  مولوی نما چہرے میری آ نکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے جوسوئے اتفاق کہ مفتی اور عالم جیسے  لاحقے بھی اپنے ناموں کے ساتھ رکھتے ہیں ۔گزشتہ ماہ رمضان میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہونے والے آپسی جھگڑے کو سڑک پر لاکر ملت کو رسواکرنے میں ایک بھاجپائی مفتی بھی شامل رہا ہے۔آج کوئی مولوی مودی کی جگا لی کررہا ہے تو کوئی مفتی چند روزہ دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہونے کیلئے اپنا ایمان اور ضمیر سب کچھ بی جے پی اور سنگھ کے ہاتھوں میں گروی رکھ چکا ہے تو جبہ ودستار میں لپٹی ہوئی ایک بڑی قطار خود کو بیچنے کیلئے بے قرار اوربیتاب بیٹھی ہے۔

غور کیجئے ! جس مذہب کے ماننے والوںکا بڑا طبقہ وقتی فائدے اور عہدہ و مناصب کیلئے جب کسی بھی حدتک جانے کوتیار ہوجائے تو اس مظلوم ملت کو آپس میں لڑانے ،باہم دست وگریباں کرنے اور اپنے ہی گلی محلوں میں ایک دوسرے کیلئے اجنبی بنادینے کی سنگھی سازش کو کامیاب ہونے سے کون روک سکے گا۔ یاد رکھئے کہ 29جنوری کو مسلم اکثریتی علاقہ جامعہ نگر میٹرو اسٹیشن کے قریب مبلغ و مجاہدِختمِ نبوت پر جان لیوا حملہ کرنے والا بھی ہمارے ہی معاشرہ کیگمراہ ہوچکے لوگ رہے ہوں گے۔آخر اتنی بڑیمسلم آ بادی میں فتنہ ٔ شکیلیت کے چنگل میں پھنس جانے والے مٹھی بھر گمراہ جوانوں کو راہ راست پر لا نے میں ہم ناکام ہیں پھر ملک گیر پیمانے پرسر اٹھانے والے فتنوں کی سرکوبی ہمارے بس میں کیسے ہوسکتی ہے۔نعمان مکی صاحب کے شبہات میں اس لئے بھی دم نظر آتا ہے کہ ایمان اور ضمیر بیچ چکے مفتیوں مولویوں اور مسلمان نما انسانیت فروشوں کو سارے ملک کے مسلمان آج اپنی آ نکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔کیرلامیں جو گمراہ عورت نماز جمعہ کی امامت کرارہی تھی وہ سنگھ کی ایجنٹ ہے اس کی تصویر میں اس تحریر کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔بلکہ اس کے پیچھے نماز ادا کررہے بھاجپائی کارندے بھی صف میں موجود ہیں ۔ان حالات میں ملت کے سرکردہ حضرات ،ائمہ مساجد اور سماج کے سنجیدہ لوگوں کو اپنے گلی محلوں میں آوارگی کررہے جوانوں اور بچوں کی اصلاح کیلئے سامنے آنا ہوگا ،ورنہ یہ فتنے اور اس سے بھی بڑے فتنے ہمارے گھروں میں بھی داخل ہوجائیں گے اور چاہ کر بھی ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اس فتنہ شکیلیت کی جڑ میں کھاد پانی ڈالنے والے بھی ہم میں سے ہی تیار کئے جائیں گے اور ہماری غفلت و لاپرواہی اسی طرح فسطائی قوتوں کو ہمیں کھوکھلا کرنے اور ہمارے دین وایمان کو متزلزل کرنے میںمعاون ثابت ہوتی رہے گی۔لہذاتمام بھائیوں سے درخواست ہے کہ اللہ کے واسطے وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ ہر بات کا منفی مطلب نکالنے سے بچیں۔یہ ہمارا اختلاف جو تبلیغی جماعت اور مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں پیدا ہواہے اس کی حیثیت بس نظریاتی ہے۔نہ ہی یہ ذاتیاتی ہے اور نہ ہی کفر و اسلام کا معرکہ ہے۔دیوبند بھی ہمارا ہے۔تبلیغی جماعت بھی ہماری   اور سارے شوریٰ کے بزرگ بھی ہمارے ہیں۔


09911587378

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 998