donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md Shadman Alam Barkati
Title :
   Ghurba wa Masakeen Se Hamdardi


   غرباء ومساکین سے ہمدردی 
 
 
از :محمد شادمان عالم برکاتی رفیع گنجوی 
 
 
شام کی سہانی گھڑی تھی۔ہلکاہلکا ہوا شبنمی آنچل لہرا رہا تھا۔ تمام چرند وپرند چہچہاتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنے آشیانوں کی طرف رواں دواں تھے۔ اچانک آسمان نے اپنارنگ بدلا ۔آسمان پر بادلوں کی فوج خونخوار لشکر کی طر ح سر اٹھا کر بڑھنے لگی ۔بجلی اژدھے کی مانند پھنکاریں مارنے لگی ۔یہ ہیبت ناک منظر تمام لوگوں کے دلوں میں رعب ودبدبہ پیدا کر رہی تھی ۔سب لوگ اپنے مسکن کا رخ کر رہے تھے۔اس کے برعکس ایک خوبرو حسین نوجوان جس کے چہرے سے خوشی کے آثار چمک رہے تھے‘ مسرور وخورسند ہو کر تیزقدموں کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا ۔ اچانک اسکی نظر ایک مفلوک الحال لڑکی پر پڑی جو اپنے پہلو میں کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔شکل وصورت میں بے کس ولا چار نظر آرہی تھی ۔جسکے پراگندہ بال اور پوشاک اسکی غر بت وافلاس کی شکایت کر رہی تھی ۔شوریدہ حال اور شورید ہ خاطر دوشیزہ کو دیکھ کر اچانک اس خوبرو نوجوان کے چہرے کی خوشی اڑ گئی‘دل میں ایک عجیب سے کیفیت طاری ہوگئی ۔غم واندوہ نے فورا دل پر ڈیرہ ڈال دیا ۔بوجھل قدموں سے لڑکھڑاتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا اور قریب پہنچ کر عرض کیا بیٹی! ہاتھ میں کیا ہے ؟اور اسے بار بار پہلومیں چھپانے کی کوشش کیوں کر رہی ہو ؟یہ سوال اس کے دل میں نشتر کی طرح چبھا اور د ل کو گھائل کر تا چلا گیا۔دل ودماغ پر افسردگی کی کالی گھٹائیں چھانے لگی ۔کیونکہ اسکے من میں بے شمار ایسے رموز واسرار تھے جسے وہ زبان پر نہیں لا سکتی تھی اس لئے کہ وہ اپنے سربستہ رازوں کو خود بے نقاب نہیں کرنا چاہتی تھی۔جس کی بنا پر پہلے تو اس نے بتانے سے گریز کیا پھر بہت زیادہ اصرار کے بعد بغل سے ایک مری ہوئی مرغی نکال کر سامنے رکھ دی ۔اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے عر ض گزار ہوئی میر ے گھر میں بہت سالوں سے فاقہ چل رہا ہے ۔فاقہ ہمارے دامن کوالوداع کہنے کے لئے تیار نہیں ‘ماں بہت دنوں سے علیل ہے ۔گھر میں کھانے کو کچھ نہیں جس سے بھوک مٹائی جاسکے ۔ماں نے کہا ہے اگر کھانے کو کچھ ملے تولے آنا ۔چنانچہ بسیار تلاش کے بعد مجھے کوڑے میں ایک مر ی ہوئی مرغی ملی جسے میں چھپا کر گھر لے جار ہی تھی ‘تاکہ دوسرے لوگ نہ دیکھیں ۔
 
یہ سننا تھا کے دل میں ایک ہل چل اور ہیجان پیدا ہو گئی  ۔حزن وملا ل نے ایک انگڑائی لی اور پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا بیٹی! تمہار ا گھرکدھر ہے ؟تم کہا ں رہتی ہو ؟مجھے تم اپنے ساتھ لے چلو ۔بچی پہلے تو ہچکچائی پھر اصرار بسیار کے بعد اسے اپنے گھر لے جانے کے لئے تیار ہو گئی ۔کچھ پگڈنڈیوں سے گذرنے کے بعد دو نوں ایک تاریک حجرے میں داخل ہوئے جہاں ایک ٹمٹماتے چراغ کی روشنی میں بوسیدہ چٹائی پر اسکی ماں لیٹی ہوئی تھی اور کراہ رہی تھی ۔یہ دلسوز اور جاں گسل منظر نے پورے وجو د کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔دل میں ایک انقلاب پیداہوگیا ۔آنکھوں سے آنسوں کے دو چشمے پھوٹ کر اسکے سینے پر گرنے لگے ۔ساتھ میں جتنا مال تھا ساری پونجی اسکے حوالہ کر دیا اور حج کا فریضئہ ادا کئے بغیر گھر لوٹ گئے ۔یہ کوئی اور نہیں بلکہ عبد اللہ بن مبار ک تھے جنہوں نے ایک سال کی چلچلاتی دھوپ میں مسلسل جانفشانی اور عرق ریزی کے بعد فریضئہ حج کے لئے پونجی جمع کی تھی ۔لیکن فریضئہ حج ادار کرنے  کے بجائے انھوں نے وہ کارنامہ انجام دیا جسکے بنا اس سال اللہ تعالی نے صرف انکے حج کو شرف قبولیت بخشا  ۔
 
لیکن آج کے ماحول پر ہم ایک سرسری نظر دوڑائیں تو معاملہ اس کے بر عکس نظر آتا ہے ۔آج ہمارے بیچ ایسے مالدار بھی موجود ہیں جنکے پاس وافر مقدار میں مال موجود ہے ۔لیکن اس میں سے تھو ڑا دیتے ہیں وہ بھی شہر ت کے لئے ‘لیکن ان کی خفیہ خواہشات ان کے صدقہ کو حقیر وناکار ہ بنا دیتی ہے ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو تھو ڑا مال رکھتے ہیں پھر بھی دوسروں کے لئے اپنی جان ومال سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں ۔دوسروں کی ٹیس کو اپنی ٹیس سمجھتے ہیں غرض کہ دوسروں کے لئے سب کچھ قربان کر دیتے ہیں ۔اور وہ اپنی زندگی اور نعمتوں پر اعتماد رکھتے ہیں جس کے سبب ان کی تجوری کبھی خالی نہیں ہوتی ‘اور ہمیشہ امن وسکون کی زندگی گزارتے ہیں۔اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انتہائی مسرت وخلوص کے ساتھ خیرات کرتے ہیں ان کی مسرت وشادمانی انکے فیاضیوں کا انعام ہے جو انھیں ہمیشہ ہشاش وبشاش اور خوش وخر م اورفرحت وشاداں رکھتا ہے ۔اورکچھ وہ بھی ہیں جو دیتے ہیں پر مسرت وملال حسن وثواب سے بے نیاز او ربے پروا ہو کراور وہ اس طرح دیتے ہیں جس طرح وادی میںپھول تمام ماحول کو معطر کر کے رکھتی ہے ۔
 
سائل کودینا کار ثواب ہے لیکن اس سے بھی زیاد ہ لطف اور ثواب کا کام بغیر سوال کے دیناہے ۔سخی کو خیرات کرنے سے زیادہ لطف حاجتمندکو تلاش کرنے میں اور اسکی نصرت واعانت کرنے میں ہے ۔آج ہمار ے بیچ کتنے مالدار ہیں جو فلک بوس عمارتوں میں قمقموں اور بجلی کے سائے تلے زندگی گذار رہے ہیں ۔عیش پرستی اور عیش نشاط جن کی زندگی کا ایک اہم رکن ہے ۔اور اس دنیائے فانی کی لذات میں گرفتار ہیں۔مال ودولت کے سر سبر وشاداب اور خوشنما باغ ومحلا ت ایسے لوگوں کی آنکھوں میںپٹی باندھ دیتے ہیں جو آنے والے مصائب سے بے خبر اور بے پروا ہو جاتے ہیں ۔لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں یہ دنیاوی ثروت وحشمت‘ یہ ملبوسات جس پر ہم ہمیشہ نازاں وفخرا ں رہتے ہیں ہمارے کام نہیں آئیگی ۔جب ہم موت کے شکنجہ میں جکڑ دیئے جا ئیںگے اسو قت بے کس وبے بس تن پر خالی کفن رہ جائیگا ۔قبر تنہائی کا گھر ہے ‘وہاںہمیں اکیلا رہنا ہوگا ‘وہاں دنیاوی جاہ وحشمت کام نہ آئیگی ۔ہمارے خویش واقارب ہمیں تنہار چھوڑ کر ہم پر مٹی ڈال کر گھر لوٹ جائیں گے ۔
 
        گلستان  باقی رہے گا  نہ چمن  رہ جائے گا      اک رسول اللہ کا  دین حسن  رہ جائیگا 
        ہم  صفیرو باغ  میں کوئی  دن کے  چہچہے         بلبلیں اڑ جائیں سونا  چمن  رہ جائیگا 
 
       اطلس  وکمخواب کے کپڑوں پہ نازاں کیوںتو ہے      اس تن بے جان پر خالی کفن  رہ جائے گا
مسلمانوں جب ہم لذیذ میوائوں او رپکوان کا مزہ اٹھا رہیں ہو ‘جب ہمارا دل مسرتو ں کا گہوارہ بن جائے‘ عیش پر ستی میں منہمک ہو تو اسو قت ہم اپنے دل کے تہ خانے پر نگاہ ڈالیں اور کچھ لمحے کے لئے زاوی فکر کی وادی میں سیر کریں اور سوچیںکہ ہمار ی طرح دل رکھنے والے کتنے حساس انسان ہیں جو فقر وفاقہ اور تنگی ومفلسی کی وجہ سے د ر بدر ہاتھ پھیلائے پھر رہے ہیں‘جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔کتنے ایسے نو نہال بچے ہیں جو مسکن نہ ہونے کی وجہ سے سڑ ک پر سرد ہواؤں میں ساری را ت بیتا دیتے ہیں۔کتنے شوریدہ حال اور شوریدہ خاطر انسان ہیں جو دوسروں کی دہلیزپر کاسئہ گدائی لیے دستک دیتے نظر آتے ہیں لیکن انھیں کوئی اپنی تجوری سے تھوڑا سا بھی صرف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کے بر عکس اپنی تنگ جیبی کا بہانہ کر کے دھتکار دیتے ہیں ‘لات مار کر نکا ل دیتے ہیں ‘نفرت کا اظہار کرتے ہیں ‘اسکی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس کے دل پر کیا بیتی ہو گی ؟اگر خدا نخواستہ اللہ نے ہماری حالت بدل دی اور دو وقت کی روٹی کے لیئے ہمیں دوسروں کے دہلیز پر کاسئہ گدائی لے کر دستک دینے کی نوبت آئی اور اس نے ہمیں دھتکاردیا تو ہم پر کیا گزرے گی ؟یہ مال وثروت اور حشمت وجاہ قسمت کی ایک دین ہے ۔اور قسمت ایک پیسے کی مانند ہے جوہمیشہ گھومتی رہتی ہے ۔کوئی نیچے آ جاتا ہے اور کوئی اوپر پہنچ جاتا ہے ۔ہم جب اوپر آئیں تو نیچے والوں کے ہاتھ تھام لیں اور انکا سہار ا بن جائیںکیونکہ اگلے چکر میںہوسکتا ہے کہ ہم نیچے آجائیں اورہمیںان کے سہارے کی ضرورت پڑیگی ۔
 
اے دوست آج تکیہ گل تیرا سرہانہ ہے کل تپتی ہوئی چٹان ہوگی کیا تم نے جانا ہے 
نیکیوں کا لگابستر گر چاہتا ہے خوش رہنا ورنہ آنے والا کل تیرے پچھتاؤں کا فسانہ ہے 
آج ہمارے بیچ کتنے مالدار ہیں جوحج کے لئے ہر سال لاکھوں کروڑوں رقم خرچ کر رہے ہیں ۔اور کتنے ایسے ہیں جو حج کرنے کے بعد ببانگ دہل اعلان کر تے ہیں کہ یہ میرا پندر ہواں حج ہے ۔میں بیس مرتبہ حج کر لیا ہوں اور انشاء اللہ ہر سال حج کرتا رہونگا‘ حج کرنے پر فخر ومباہات کر رہے ہیں ۔اور ہم میں سے کتنے مالدار ہیں جو اپنی عمار ت کی آر ائش وزیبائش کے خاطر لاکھوں روپیہ صرف کر رہے ہیں ۔کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ان حج کے پیسوں سے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کی زندگی سنوارے اوران کی زندگی کو مسرت وشادمانی کی جھولی سے بھر دیں جنہوں نے کبھی ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا ‘جنہیں کبھی دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوئی۔کیا یہ نہیں ہو سکتا ان مال ودولت سے عمارت اور باغ کو آرائش وزیبائش کرنے کے بجائے ان یتیم اور بے بس نو نہالوںکی تعلیمی پسماندگی دور کی جائے جن کے پاس وافر مقدار میں مال موجود نہیں‘جس کے بنا وہ اپنی تعلیمی پسماندگی دور کرسکیں ۔مسلمانوں ہم سے جس قدر ہو سکے صدقہ دیا کریںاور غریبوںومسکینوں سے محبت کیا کریں ۔کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گر امی ہے ,,صدقہ دینے میں جلدی کیا کرو ‘اس لئے کہ بلا ومصیبت صدقہ کو پھلانگ کر نہیں آ سکتی ‘‘۔
 
کرو مہربانی اہل زمیں پر خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
 
آج کتنے نسان غربت وافلاس ‘فقر وتنگدستی اور جہالت کی زندگی گزار رہے ہیںیہ محتاج بیان نہیں ۔آج ہمیں ان کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن پاک مین غرباء ومساکین ‘یتیم ونادار اور پسماندگی کی زندگی بسر کرنے والے انسانوں کے ساتھ ہمدردی ‘محبت وتعاون اور حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔کیونکہ یہی وہ غرباء ہیں جن کی پروری کی وجہ سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور انسانوں کو رزق حاصل ہوتی ہے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الصدقۃ تطفی غضب الرب‘‘صدقہ اللہ کے غضب کی آگ بجھا دیتا ہے ۔دوسری جگہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’ھل ترزقون الا بضعفائکم ‘‘تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالی ضعفاء وغرباء کی وجہ سے تمہیں روزی دے رہا ہے ۔اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم عائشۃ رضی اللہ عنھا کو بھی مسکینوں اور غریبوں سے محبت کرنے کی تلقین فرمائی ۔جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔’’یا عائشۃ أحبی المساکین فان اللہ یقربک یوم القیامۃ ‘‘اے عائشۃ مسکینوں سے محبت کرو اللہ تعالی قیامت کے دن اپنی رحمت سے تمہیں ہمکنار کریگا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود غرباء ومساکین سے محبت کیا کرتے تھے اور ان کی مجلسوں میں شرکت کیا کرتے تھے ۔
 
آج ہم امت محمدیہ ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں ‘اس پر فخر ومباہات کر رہے ہیں ۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس امتی کے سردار ہمارے آقاومولی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیسی تھی ۔انکا غریبوں اور بیواؤں سے کیامعاملہ تھا ؟یہ وہی نبی تھے جو اپنے ایک کاندھے پر اپنے نواسئہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو رکھ کر نکلتے تو دوسرے کاندھے پر اپنے غلام زید کو رکھ کر نکلتے ۔یہ تاریخ کا بڑا ہی نادر ونایاب اور انتہائی روشن وتابناک پہلو ہے کہ ایک کندھے پر غلام زادے اور دوسرے کندھے پر امام زادے کو سوار کر رہے ہیں ۔ہاں یہ وہی نبی تھے جنہوں نے اپنے نواسہ اور غلام کے بیچ کبھی امتیازنہ کیا ۔آج ہمار ا معاملہ کیا ہے ؟کیا اس کے بارے میں ہم نے سوچا؟آج غریبوں اور یتیموں کے ساتھ ہم کیا رویہ اختیار کر رہے ہیں کیا اس کے بارے میں غور وفکر کی ؟
 
  ادا سرکار دو عالم کی سنت کون کرتا ہے 
یتیموں اور غریبوں سے محبت کون کرتا ہے
 
برادران وطن !دسمبر اور جنوری میں کڑاکے کی ٹھنڈی اور سردہوائیں جب جسم کو چھلنی کررہی ہوتی ہے۔ اور ہم نرم نرم لحافوں اورگرم گرم رزائیوں میں سکون کی نیندسو رہے ہوتے ہو تو اس وقت کیا ہمیں وہ مائیں یاد آتی ہیں جو جھونپڑی کی کوٹھری میں تنگی کے سبب آدھی چادر اوڑھ کر ساری رات گزار دیتے ہیں ؟مسلمانوں! عید کے موسم میںجب ہمارے دامن خوشیوں سے لبریز ہو تے ہیں۔ اور صبح صبح اٹھ کر اپنے چہیتے اولادوں کو رنگ برنگ اور نت نئے کپڑے پہنا کر انگلیوں کو پکڑ کر عید گاہ کی طرف چل رہے ہوں تو کیاہمیں وہ یتیم بچے یاد آتے ہیں جن کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا ہو جس کے بنا عید کے دن نت نئے اور رنگ برنگے کپڑے خریدکر پہننے کے لئے پیسے نہیں‘؟اور راستے میں حسرت بھری نگاہوں سے دوسر ے بچوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے‘اور دل میں کڑھ رہا ہوتا ہے کہ کاش! آج میرے والد ہوتے تو مجھے یہ میلے کچیلے کپڑے پہننے کی نوبت نہیں آتی۔
 
مسلمانوں دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیڑ سے سیکھئے وہ اسکو بھی سایا دیتا ہے جو اسے کاٹنے آتا ہے ۔ایثار وقربانی کاجذبہ چراغ سے سیکھئے جو اپنے وجود کو خاکسترکرکے دنیا کو روشنی دیتاہے ۔فراخ دلی کا ولولہ شہد کی مکھی سے سیکھیئے جو اپنی محنت سے اکٹھا کیا ہو ا شہد بخوشی دو سروں کو دے دیتی ہے ۔جبکہ آج ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوںاور دولتوں پر فخر ومباہات کر رہے ہیں ۔ آج ہم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہمیں غیر جانداروں سے عبر ت لینے کی ضرورت ہے۔آج نہ ہمیں غریبوں کی پرواہ ہے نہ بیواؤں اور یتیموں کی ۔آج ہمار ا معاملہ بالکل بر عکس ہے ۔مسلمانوں سوچو ہم قیامت کے روز اپنے رسول کے سامنے کون سا چہرہ لے کر جائیںگے ۔
 
                           
       Darul Huda Islamic University
Chemmad,Mallapuram,Kerala
Degree Final Year Student(smsBlock)
Email:shadmanbarkati786@gmail.com 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1025