donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Telaq Moghalza Ki Talwar Se Lahuluhan Musli Khawateen


طلاق مغلظہ کی تلوار سے لہولہان مسلم خواتین  


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    طلاق مغلظہ کتنی درست ہے؟ کیا یہ طریقہ شرعی ہے؟ اگر غیرشرعی طریقے سے طلاق دی جاتی ہے تو کیا واقع ہوجائے گی؟ اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں تو تین واقع ہونگی یا ایک؟ ان سوالوں پر ہندوستان میں بحث ہوتی رہی ہے اور اب ایک بار پھر یہ بحث تازہ ہوگئی ہے۔کانپور کی ایک تنظیم سنی علماء کونسل نے تین طلاق کی قباحت اورسماج پر مرتب ہورہے مضر اثرات کے سبب اس نظام پر علماء سے غور کرنے کی گذارش کی ہے تو دوسری طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس معاملے پر غور کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مجلس میںتین طلاقوں کو تین ہی مانا جائے گا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اسی کے ساتھ ایک سروے سے انکشاف ہوتا ہے کہ ہندوستان کی 92فیصد مسلم خواتین طلاق کے مروجہ طریقے کو ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ اس سروے میں یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ 95.5فیصد مسلمان عورتوں نے کبھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نام ہی نہیں سنا ہے۔اسی کے ساتھ ایک سرکاری اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ آئی ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کے اندر تین طلاقوں کے رواج سے بہت سے خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور مسلم عورتوں کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے لہٰذا اسے ختم کیا جانا چاہئے۔ویسے طلاق کے معاملے میں سینکڑوں سال سے علماء کے بیچ اختلاف رہا ہے اور حنفی علماء جہاں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں وہین کچھ دیگر طبقات کے علماء اسے صرف ایک مانتے ہیں۔ یعنی حنفی علماء کی نظر میں تین طلاقوںکے ساتھ میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوگیا جب کہ دوسرے علماء کا ماننا ہے کہ نکاح پوری طرح ختم نہیں ہوا اور تین حیض (لگ بھگ تین مہینے) کی مدت میں رجوع کیا جاسکتا ہے اور دونوں شوہر بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔

 مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ضد

    حا ل ہی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء  بورڈ نے تین بار طلاق کہنے کی روایت کو تبدیل کرنے سے صاف طور پر انکار کر دیا ہے۔بورڈکی جانب سے کہا گیا ہے کہ قرآن اور حدیث کے مطابق ایک بار میں تین بار طلاق کہنا اگرچہ جرم ہے، لیکن، اس سے طلاق ہر حال میں مکمل تصور کی جائے گی اور اس نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بورڈ کے ترجمان مولانا عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ انہیں اخباروں کی خبروں سے پتہ لگا ہے کہ آل انڈیا سنی علماء کونسل نے بورڈ کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور بریلوی مسلک کے علماء کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اگر اسلامی قانون میں گنجائش ہو تو کسی شخص کی طرف سے ایک ہی موقع پر تین بار طلاق کہے جانے کو ایک بار کہا ہوا مانا جائے، کیونکہ اکثر لوگ غصے میں ایک ہی دفعہ تین بار طلاق کہنے کے بعد پچھتاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خبروں کے مطابق کونسل نے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ایسا نظام لاگو ہونے کی بات بھی کہی ہے،، وہ کونسل کی تجویز سے متفق نہیں ہے۔بورڈ کے ترجمان نے کہا کہ کسی مسلم ملک میں کیا ہوتا ہے، اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، سوڈان اور دیگر ملکوں میں کیا ہو رہا ہے، وہ ہم نہیں دیکھتے۔ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف، حدیث اور سنت کیا کہتی ہے۔ اسلام میں ایک ہی موقع پر تین بار طلاق کہنا اچھا نہیں سمجھا گیا ہے لیکن اس سے طلاق ہوجاتی ہے۔ اس نظام میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قریشی نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے گزشتہ ہفتے ملک کے تمام علماء کے نام ایک سوالنامہ بھیجا ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ ایک وقت میں تین طلاق کہنے والوں کو کیا جرمانے کی کوئی سزا دی جا سکتی ہے؟وہیں بریلوی مسلک کے اہم مرکز درگاہ اعلی حضرت کی مذہبی اور سماجی معاملات کی یونٹ کے جنرل سکریٹری مولانا شہاب الدین نے بتایا کہ اس طرح کا مطالبہ پہلے بھی اٹھا ہے۔ تاہم علماء نے اسے قبول نہیں کیا۔

علماء کے لئے لمحہ فکریہ

     سنی علماء کونسل نے مسلم علماء سے ایک بار میں تین بار طلاق کہنے کو خلاف شریعت قرار دینے اور اس پر بھاری جرمانہ لگانے کی اپیل کی ہے۔اس کے پیچھے کی سوچ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں صرف ایک بار میں تین بار طلاق کہنے سے خاندانوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے معاشرے میں پریشانیاں پیداہو رہی ہیں۔ اسی کو دور کرنے کے لئے سنی علماء کونسل نے اس معاملے پر مسلم علماء سے غور کرنے اور اس عمل کو تین ماہ میں کرانے کے انتظام پر اتفاق رائے بنانے کی علماء ومفتیان سے سفارش کی ہے۔سنی علماء کونسل نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیوبند ی و بریلوی علماء کو لکھے گئے خط میں دعوی کیا ہے کہ پاکستان، مصر، سوڈان، عراق، جارڈین جیسے سات ممالک نے اپنے یہاں قانون بنایا ہے کہ شوہر کی طرف سے بیوی کو طلاق دینے میں تین حیض کافرق ہونا چاہئے۔کونسل کا کہنا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی بار میں تین بار طلاق کہہ کر طلاق نہ دے بلکہ پہلی بار طلاق کہنے اور دوسری بار طلاق کہنے میں عورت کے ایک حیض کی مدت کا فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح دوسری سے تیسری بار طلاق کہنے کے درمیان ایک اور حیض کا فرق ہونا چاہئے۔ مطلب یہ کہ تین بار طلاق کہنے میں تقریبا تین ماہ کا فرق ہونا چاہئے۔اسی طرح ایک سانس میں تین بار طلاق کہنے پر بھاری جرمانہ لگادیا جائے تو مسلم سماج کو فائدہ ہوگا اور بہت سے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں گے۔کانپور کے سنی علماء کونسل کے جنرل سکریٹری حاجی محمد سلیس ایک بار میں تین طلاق دینے کے خلاف بیداری مہم چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانپور میں کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں، جہاں ایک بار میں تین طلاق دینے کے کچھ دن کے بعد مرد اور عورت دونوں شہر قاضی کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے غصے میں یا جھگڑے کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تھا۔ اب وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت کچھ کرنا مشکل ہوتا ہے۔حاجی سلیس دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح طلاق دینے  والے نوے فیصد مرد اپنے فیصلے پر دکھی ہیں اور اپنی بیوی اور بچوں کو پھر سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے مذہب نے ایسی بری شرط لگا رکھی ہے کہ ان دونوں کی دوبارہ شادی سے پہلے کئی بڑے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے شہر قاضی اور سنی علماء کونسل نے علماء سے اپیل کی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی تسلیم کرنے پر شرعی راستہ نکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تین ماہ کی مدت میں دونوں اطراف کے درمیان سمجھوتہ کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے اور ایک خاندان کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حاجی سلیس کی تحریک قابل تعریف ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی اس قسم کی تحریک چلانی چاہئے۔ حالانکہ بورڈ کے بعض ذمہ داران اپنا اصل کام چھوڑ کر ’’دین ودستور بچائو‘‘ کے نام پر اپنے لئے راجیہ سبھا سیٹ کے جگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو کام دنیا کے دوسرے ممالک میں پوری طرح شرعی ہے وبھارت میں غیر شرعی اور قرآن وسنت کے خلاف کیوں ہے؟

 مسلم خواتین کے لئے عذاب ،تین طلاق

     تین بار طلاق کہہ کررشتہ ختم کرنے کے قانون سے مسلم خواتین کواتفاق نہیں ہے۔حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 92 فیصد مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کا اصول ایک طرفہ ہے اور اس پر روک لگنی چاہئے۔ اس سروے کے تحت ایک غیر سرکاری ادارے بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نے ملک میں 4710 مسلم خواتین کی رائے جانی۔ سروے کے دوران شادی، طلاق، ایک سے زیادہ شادی، گھریلو تشدد اور شرعی عدالتوں پر خواتین نے کھل کر اپنی رائے ظاہر کی۔سروے میں کہا گیا کہ زیادہ تر مسلم خواتین اقتصادی اور سماجی طور پر کافی پسماندہ ہیں۔ وہیں 55 فیصد خواتین نے ماناکہ ان کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو گئی تھی۔ ان میں سے بہت سی خواتین کو گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ سروے میں شامل 91.7 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ اپنے شوہروں کے دوسری شادی کرنے کے خلاف ہیں۔ اس مطالعہ میں شامل میں 73 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی 50 ہزار روپے سے کم ہے۔ سروے میں شامل 525 طلاق شدہ خواتین میں سے 65.9 فیصد نے بتایا کہ انھیں زبانی طلاق ہوئی ہے، جبکہ 78 فیصد کا کہنا تھا کہ اک طرفہ طریقے سے طلاق ہوئی۔ 83.3 فیصد مسلم خواتین کو لگتا ہے کہ گھریلو معاملات میں اگر اسلامی قانون کا صحیح نفاذ ہو، تو ان کے خاندانی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سروے میں شامل 95.5 فیصد مسلم خواتین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کبھی نام ہی نہیں سنا۔ سروے میں جائیداد کے معاملے میں بھی مسلم خواتین کی پسماندگی اجاگر ہوئی ، اعداد و شمار کے مطابق 82 فیصد خواتین کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے۔

تین طلاق کے سبب مسائل

    خواتین اور بچوں کی فلاح کے سلسلے میں حا ل ہی میں مرکزی سرکار کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش سامنے آئی ہے۔مئی 2013 ء میں یو پی اے سرکار کے ذریعہ قائم اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزارت برائے بہبود خواتین واطفال کو سونپی اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ زبانی، ایک طرفہ یا تین بار طلاق بول کر نکاح توڑنے کی روایت پر پابندی لگنی چاہئے۔ کمیٹی نے تمام مذاہب میں شادی رجسٹریشن کو لازمی بنانے کی بھی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلامی ممالک میں تین بار طلاق بولنے سے نکاح توڑنے کی روایت اب ختم کی جا چکی ہے۔ ان ممالک میں عراق، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، تیونس، ایران اور بنگلہ دیش سمیت کئی ملک ہیں، لیکن ہندوستان میں یہ اب بھی باقی ہے۔ کمیٹی نے تشویش ظاہر کی ہے کہ ان دنوں ایس ایم ایس، سوشل سائٹس اور اسکائپ پر تین بار طلاق بول کر شادی توڑنے کے معاملے سامنے آ رہے ہیں، لیکن اس پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔واضح ہوکہ یو پی اے حکومت نے یہ اعلی سطحی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس میں 14 رکن ہیں۔ اس کمیٹی کو خواتین کی صورت حال پر رپورٹ دینے کے لئے کہا گیا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 528