donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim University wa Jamea Millia Islamia Par Bhagwa Hamla


 مسلم یونیورسٹی و جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھگوا حملہ


ہندوستانی مسلمانوں کی شہ رگ کاٹنے کی کوشش


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وجود خطرے میں ہے۔مسلمانوں کے اندر ماڈرن ایجوکیشن کی جوت جگانے والے اداروں پر بھاجپا سرکار کی بری نظر ہے۔ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگاکر اقتدار میں آئے نریندر مودی اب مسلمانوں کے تعلق سے آرایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں۔ مودی سرکار نے سپریم کورٹ میں کہاہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،مسلم اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلق سے بھی ایسا ہی موقف رکھتی ہے اور ان دونوں اداروں سے مسلمانوں کے لئے پچاس فیصد ریزرویشن ختم کرنا چاہتی ہے۔اسی کے ساتھ مسلمانوں کو دلتوں اور پسماندہ طبقات سے لڑانے کے لئے اس نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ ان اداروں میں ایس سی،ایس ٹی اور اوبی سی ریزرویشن نہیں ہے جس سے ان طبقات کی حق تلفی ہورہی ہے۔ مرکزی سرکار کے مسلم دشمن نظریے نے ملک بھر کے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور وہ تحریک کے راستے پر جانے کی سوچ رہے ہیں۔ان اداروں کے فارغین ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ مرکزی سرکار مسلمانوں کے خلاف اقدام کر رہی ہے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ ان اداروں کے ٹیکنیکل شعبوں میں آج بھی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مجموعی طور پر ان یونیورسٹیوں میں مسلم طلبہ کی اکثریت ہے لیکن اگر الگ الگ شعبوں کو دیکھا جائے تو جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اچھی نہیں ہے۔ میڈیکل، انجینرینگ اور پروفیشنل کورسیز میں مسلم طلبہ بہت کم ہیں جب کہ اردو، فارسی، عربی اور اسلامیات میں سوفیصد مسلمان ہی ہیں۔ اس طرح سے ان اداروں میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود پروفیشنل شعبوں میں وہ کم تعداد میں ہیں۔ معاملہ کورٹ میں ہے اور جنگ قانونی ہے مگر پھر بھی عام اورخاص مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں۔ انھیں اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے جو پہلے ہی سے ہر شعبۂ حیات میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ماضی کی تاریخ کو دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ان اداروں پر حملہ کرنے والوں کا کوئی اچھا انجام نہیں ہوا ہے وہ اندرا گاندھی ہوں یا چھاگلہ۔ بہرحال یہ خوشی کی بات ہے کہ بے یارومددگار مسلمانوں کی حمایت میں کچھ سیاسی پارٹیوں کے لوگ بھی نظرآنے لگے ہیں۔

 آٹھ پارٹیوں کا اتحاد

    آٹھ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی حکومت کی کوششوں کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے مخفی فرقہ وارانہ ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے اس طرح کے قدم اٹھارہی ہے۔ کانگریس کے ایم پی پرمود تیواری جنتادل (یونائٹیڈ)کے کے سی تیاگی ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ڈی پی ترپاٹھی ، مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رتابرتا بنرجی ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ ترنمول کانگریس کے سکھیندرو رائے ، راشٹریہ جنتادل کے جے پرکاش یادو اور عام آدمی پارٹی کے بھگونت مان کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو تباہ کرنے والے اس قدم کے خلاف احتجاج میں ہم لوگ صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کریں گے اور اس معاملے کو پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں بھی اٹھائیں گے اور دونوں تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے خلاف ایک دستخطی مہم بھی چلائی جائے گی۔جب کہ اترپردیش کے وزیر حاجی فرید محفوظ قدوائی نے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مائناریٹی اسٹیٹس دیا جانا چاہئے۔ گزشتہ 50 سال سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن کانگریس نے اسے دبائے رکھا تھا۔

 لوک جن شکتی پارٹی کا الگ موقف

    این ڈی اے سرکار کے موقف کے برخلاف مرکزی حکومت میں شامل لوک جن شکتی پارٹی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو واضح طو ر پر اقلیتی ادارہ تسلیم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دونوں ادارے اقلیتی ہیں اس میں کسی کو کسی طرح کاشبہ نہیں ہونا چاہئے۔ پارٹی کے سکریٹری جنرل عبدالخالق نے اے ایم یو اولڈ بوائز کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے ،اس لئے اس کی پیروی سڑکوں پر نہیں بلکہ عدالت میں پوری طاقت اور قوت کیساتھ کی جانی چاہئے۔ عبدالخالق نے کہاکہ اگر سڑکوں پر اس معاملہ کو لایاگیا تو اس کے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے او ر قوم ماضی میں سڑکوں پر آنے کی قیمت چکاچکی ہے۔

 مسلمانوں میں بے چینی

     علی گڑہ مسلم یونیورسیٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی میں قانونی رخنے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر سوالیہ نشان سے پیدا صورت حال پر جماعت اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری پروفیسر سلیم انجنیئر نے امید ظاہر کی اٹارنی جنرل مْکل روہتگی آئندہ چار اپریل کو سپریم کورٹ میں حکومت کا صحیح موقف رکھنے کے ساتھ ساتھ آئین ہندکی پاسداری بھی کریں گے جو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے ’’قائم کرنے اور ان کا نظم کرنے‘‘ کا اختیار دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ فی الحال مسٹر روہتگی نے مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے جو موقف اختیار کیا ہے وہ دہائیوں سے قائم سرکاری موقف نہیں ۔

     مولانا کلب جواد نقوی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو یقینی بنائے جانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو حکومت محفوظ کرے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی مسلمانوں کا دل ہے اور دل کا محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔مولانا نے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ علی گڑھ جیسے معیاری انسٹی ٹیوٹ کے اقلیتی کردار کو محفوظ کرے اور اس کے لئے مثبت قدم اٹھائے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلنے والے طالب علم دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کرتے رہے ہیں اور کریں گے۔ ایک ہی وقت میں ہندوستان اور پاکستان کے صدر رہے جنرل ایوب اور ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے تھے۔

    فورم فار مسلم اسٹڈیز اینڈ اینالائسس( ایف ایم ایس اے ) کا ماننا ہے کہ اگر وزیرِ اعظم ہندمسٹرنریندر مودی سے گفت و شنید کی راہیں وا رکھی جائیں تو یقینِ کامل ہے کہ وزیرِ اعظم اقلیتی کردار کے تعلق سے ہمارے مطالبات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔فورم کے ڈائرکٹر ڈاکٹر جسیم محمد کا ماننا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوںکے ذریعہ قائم کردہ تعلیمی ادارہ ہے جو مسلم قوم کی تعلیمی ترقی کے لئے قائم کیاگیا تھا اس لئے اس کا اقلیتی کردار محفوظ رہنا چاہئے۔ مسلم یونیورسٹی ملت اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ جب کہ ڈاکٹر قمر تبریز کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ا س کی وجہ سے ان دونوں ہی تعلیمی اداروں کے فارغین و بہی خواہان سمیت ملک و بیرونِ ملک کے مسلمانوں میں بے چینی کا عالم ہے۔

بی جے پی کا موقف

    وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کہہ چکی ہیں کہ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور اسی موقف کو دہرایا ہے ان کے نائب وزیر رام شنکر کٹھیریانے۔ کٹھیریاہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی اقلیتی ادارے نہیں ہیں اور ان میں اقلیتوں کو خاص سہولیات دے کر دلتوں، پسماندہ اور دیگر قوموں کے طالب علموں کا حق مارا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے اور حکومت اس بارے میں مضبوطی سے عدالت میں اپنا موقف رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ خود کو دلتوں اور پسماندہ طبقات کا لیڈر کہنے والی بی ایس پی سربراہ مایاوتی کو اس معاملے پر بی جے پی کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ ان دونوں اداروں میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کا حق مارا جا رہا ہے۔ جب کہ ایم جے اکبر نے  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلق سے بی جے پی  کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں وہ پہلے کی حکومتوں کے راستے کی پیروی کر رہی ہے۔بی جے پی کے ترجمان ایم جے اکبر نے معاملے پر بی جے پی کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو کے اقلیتی درجے کو لے کر پارٹی مخالفت میں نہیں ہے لیکن قانونی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس پر پلٹی مارنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سونیا گاندھی نے ایک رہنما کے خط کے دباؤ میں آکر اے ایم یو معاملے میں اپنی پوزیشن بدلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک ملک میں جتنے بھی وزیر اعظم ہوئے سب نے اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت پر یہی موقف اپنایا ہے۔ بی جے پی ترجمان نے کہا کہ اے ایم یو کو اقلیتی درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مرکزی یونیورسٹی ایکٹ کے تحت بنی ہے۔ اس کے تحت بنی یونیورسٹی کی شکل سیکولر ہی رہے گی۔ قانون میں اس بات کا انتظام ہے کہ مرکزی گرانٹ سے چلنے والی کوئی بھی یونیورسٹی مذہبی نہیں ہو سکتی ہے۔ادھر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدنے  اسمرتی ایرانی پر زور دیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) کے آپریشن میں ان دفعات کو ہٹانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، جن کے تحت یونیورسٹی اوبی سی اور دلتوں کو کوٹے کے تحت ریزرویشن نہیں دے پارہی ہے۔ مرکزی وزیر کو دیئے میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت پر تنقید کرنے والے اے ایم یو کے طالب علموں کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 526