donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Khilafate Islamia Ka Dobarah Qayam Mumkin Hai


کیاخلافت اسلامیہ کا دوبارہ قیام ممکن ہے؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    مسلمان کیوں چاہتا ہے کہ خلافت قائم ہوجائے؟ کیا وہ خلافت کو مسلمانوں کے مسائل کا حل سمجھتا ہے؟ کیا اس کی نظر میں یہ اتحاد اسلامی کی علامت ہے؟ کیا خلافت قائم ہوگئی تو عالم اسلام متحد ہوجائے گا؟ کیا خلافت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر ہوگا؟ کیا صرف خلافت قائم ہوجانے سے دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں گے؟ اگر واقعی خلافت قائم ہوگئی تو کیا اس پر سنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ شیعہ مسلمان بھی اتفاق کر لیں گے جن کے عقیدے کے مطابق خلیفہ کے لئے شرطیں سنیوں سے الگ ہیں؟ آج ان سوالات پر ایک بار پھر بحث چھڑگئی ہے اور اس کا سبب ہے عراق میں ایک آئی ایس آئی ایس نامی جماعت کا بھرنا جو خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کرچکی ہے، اس نے اپنے لیڈر ابوبکر البغدادی کو خلیفہ قرار دیا ہے اور جماعت کے ارکان اسے تسلیم بھی کرتے ہیں مگر دنیا بھر کے مسلمان اس سلسلے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے ۔ مغربی میڈیا اور اس کے نقش قدم پر چلنے والا مشرق کا میڈیا بھی آئی ایس آئی ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے اور اس کے سربراہ شیخ ابوبکر البغدادی کو ایک دہشت گرد کہتا ہے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسلام مخالفین کا دہشت گردی سے متعلق اپنا نظریہ ہے اور وہ اپنے مفاد کے پیش نظر کسی امن پسند کو آتنک وادی اور کسی آتنک وادی کو دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔

یہ سنہرا خواب

    آج اہم سوال یہ ہے کہ مسلمان آخر کیوں خلافت کا خواب دیکھتے ہیں اور اس خواب کو دیکھتے ہوئے لگ بھگ چودہ سو سال ہوگئے مگر وہ اس خواب کو پورا کیوں نہیں کرسکے ہیں؟ رسول اکرمﷺ کے خلیفہ تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، ان کے بعد عمر بن خطاب ، عثمان غنی، علی بن ابی طالب اور پھر امام حسن رضی ا للہ عنہم یکے بعد دیگرے خلیفہ ہوئے۔ ان سبھی بزرگوں کی خلافت کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے۔ یعنی رسول کریم ﷺ کے احکام کے مطابق ان کی حکومتیں چلیں اس کے بعد خلافت ملوکیت میں بدل گئی یعنی خلیفہ کی جگہ بادشاہ ہونے لگا۔ سب سے پہلے بادشاہ حضرت امیر معاویہ ہوئے جن کے زمانے میں حکومت کا انداز بدلنے لگا۔ وہ اگرچہ بادشاہ تھے مگر خود کو خلیفہ ہی کہلواتے تھے۔ ان کے خاندان کی حکومت کانام خلافت بنو امیہ رکھا گیا تھا۔ جب بنو امیہ کی خلافت ختم ہوئی تو بنو عباس کی خلافت قائم ہوئی اور جب بنو عباس کی ختم ہوئی تو عثمانی خلافت کا قیام ہوا۔ آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید دوئم تھے۔ ان خلافتوں کو بس رسمی خلافت کہہ سکتے ہیں ورنہ حقیقت میں یہ خلافت نہیں تھیں بلکہ بادشاہت تھیں۔ اس رسمی خلافت کو ختم کرنے کا کام ترکی کے حکمران اتاترک مصطفی کمال پاشا نے ۱۹۲۴ء میں کیا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں تحریکیں چلیں جن کا مقصد تھا خلافت کا دوبارہ قیام مگر یہ پھر ممکن نہ ہوسکا۔

خلافت کا مطلب؟

    خلافت کا مطلب ہے اللہ کی زمین پراللہ کی حکومت۔ خلیفہ، رسول کے نائب کی حیثیت سے اللہ اور اس کے رسول کے احکام نافذ کرے گا ،جس کی بنیاد قرآن کریم اور سنت نبوی پر ہوگی۔اپنے آپ میں یہ ایک سحر انگیز خواب ہے کہ ایک ایسی حکومت قائم ہوجائے جس میں ایک گھاٹ پر شیر اور بکری پانی پیتے ہوں۔ جہاں کوئی کسی کا حق نہ مارے اور ہر شخص ایک دوسرے کا حق ادا کرے۔ جہاں مجرم کو فوراً سزا دی جائے اور ظالم کو ایک پل میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جہاں ایک بوڑھی عورت ہاتھ میں سونا لئے ہوئے تنہا سفر کرے اور کوئی اس سے چھیننے والانہ ہو۔ جہاں کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے اور ہر کسی کے پاس کام ہو۔اس پورے سسٹم کا ایک نگراں ہو جسے خلیفہ کہا جائے اور اس کے احکام کے تابع سارا عالم اسلام ہو۔ اس کی ایک آواز پر ساری دنیا کے مسلمان لبیک کہیں۔ یہ خواب واقعی بہت ہی دلکش ہے مگر اسے تعبیر کی شکل دینا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف کتابوں اور کہانیوں کی حد تک اچھی لگتی ہیں۔ خود مسلمانوں نے اسلامی کی تاریخ میں صرف تیس سال تک ہی اس نظام کو قائم رکھا مگر اس کے بعد قائم نہ رکھ سکے۔ حالانکہ بعض گڑبڑیاں تو اسی بیچ شروع ہوچکی تھیں اور اسی نتیجے میں خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہوئی اور یہ ممکن نہ ہوسکا کہ قاتلان عثمان کو ان کے کئے کی سزا دی جاسکے۔ حالات ایسے تھے کہ اس واقعے کا سیاسی فائدہ لوگوں نے اٹھایا مگر خلافت کا نظام دوبارہ پٹری پر نہ آسکا ۔ خلفاء بنو امیہ میں ایک حضرت عمر بن عبد العزیز تھے جنھوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی یہ کوشش کی کہ وہ خلفاء راشدین کے طریقے پر حکومت چلائیں اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرکے بھی دکھایا مگر یہ سلسلہ ان کے بعد قائم نہ رہ سکا۔ البتہ اسے کے بعد سے ہی مسلمانوں کا یہ خواب رہا کہ اللہ کی زمین پر اس کے قانون کے مطابق حکومت قائم ہو اور اس کے لئے بیچ بیچ میں کوششیں بھی ہوئیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بعض اوقات تو اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ مسلمان بادشاہوں مین بعض ایسے ہوئے کہ انھوں نے اسلامی احکام کے مطابق اپنی سرکار چلائی مگر وہ خلافت نہیں تھی۔

امام مہدی خلافت قائم کریں گے؟

    اسلامی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ قرب قیامت جب حضرت امام مہدی اور عیسیٰ علیہما السلام دنیا میں تشریف لائیں گے تووہ ایک بار پھر خلافت قائم کریں گے اور دنیا میں ایسا امن وامان قائم کریں گے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پینے لگیں گے۔ مسلمانوں کے اسی عقیدے کا فائدہ اٹھا کر کئی لوگوں نے مہدی ہونے کے دعوے کئے اور کچھ لوگوں نے ان کے دعوے کو تسلیم بھی کیا مگر اس قسم کے دعوے صرف سیاسی فائدے کے لئے ہی کئے جاتے رہے ہین۔ عام مسلمان جو مذہبی احکام سے معمولی سی بھی وابستگی رکھتا ہے وہ اس دن کا انتطار کرتا ہے جب اللہ کی زمین پر اس کے احکام کے مطابق حکومت قائم ہو۔

خلافت کیسے قائم ہو؟

    اس وقت عالم اسلام میں ایسی تحریکین چل رہی ہین جن کا مقصد خلافت کا دوبارہ قیام ہے ۔ اس کے لئے لندن میں ایک مسلم تنظیم تحریک چلارہی ہے تواُدھر برصغیر مین بھی کئی مسلم تنظیموں کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیمیں اکثر اس مسئلے کو اٹھاتی ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتی ہین کہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور اللہ کے مرضی کی حکومت کے لئے خلافت کا قیام لازم ہے۔  افغانستان میں جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اپنے سربراہ ملا محمد عمر کو امیر المومنین کا لقب دیا اور انھوں نے جب انتہائی سادگی کے ساتھ حکومت چلانی شروع کی تو ساری دنیا میں کھلبلی مچ گئی اور طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اب جب عراق مین خلافت کے قیام کا علان ہوا ہے تو پھر مخالفت شروع ہوگئی ہے اور مغرب کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوگیا ہے، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس نے خلافت کا علان کرکے عام مسلمانوں کے دلوں مین جگہ بنانے کی کو شش شروع کی تھی جو اب تک کامیاب ہوتی نہیں دکھائی دیتی ہیں، بلکہ ایک منفی خبر یہ آرہی ہے کہ یہ تنظیم شیعوں پر مطالم ڈھا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو خلافت کا علم بردار ہوگا وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ اس کی نظر میں شیعہ ۔ سنی میں کوئی فرق نہین ہونا چاہئے ۔ یہاں تک کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی اس کا برتائو بہت اچھا ہونا چاہئے۔ جو خبریں عراق سے آرہی ہیں وہ مغربی میڈیا کے ذریعے آرہی ہین جن پر ابھی بھروسہ کرنا جلد بازی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میڈیا کا مقصد ہی مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور بردار کشی کرانا ہو۔

خلافت کے مسئلہ میں مسلمانوں کا اختلاف

    خلافت کا دلکش خواب صرف سنیوں کے حصے میں آتا ہے اور وہی دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا ہی ایک بڑا طبقہ اس سے اختلاف رکھتا ہے۔ وہ بادشاہت کو قبول کرلے تو کرلے مگر خلافت کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے پہلی وجہ تو یہی ہے کہ خلافت کی جو شرائط سنیوں کے ہاں ہیں ان سے الگ کچھ شرطیں شیعوں کے ہان ہیں۔ شیعہ حضرات مانتے ہیں کہ خلافت صرف علوی کا حق ہے جب کہ سنی ایسا نہیں مانتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی بھی مسلمان، عاقل و بالغ اور دیندار و متقی اور عادل شخص جو ملک گیری کی صلاحیت رکھتا ہو وہ خلیفہ ہوسکتا ہے۔ شیعوں اور سنیوں میں یہ بنیادی اختلاف ہے، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام مسلمان خلافت کے مسئلہ پر متحد ہوجائین اور وہ ایک ایسی سرکار کے قیام میں حصہ دار ہوں جو تمام مسلمانوں کے مسائل کا حل بن جائے۔

    اصل میں خلیفۂ اسلام کا تصور اسلام کا بنیادی تصور ہے ۔ خلیفہ وہ ہوگا جو ان کا سب سے بڑا سردار ہو یعنی عالمی سردار۔ اس کی حیثیت عیسائیوں کے پوپ سے بھی بڑی ہوگی کیونکہ پوپ صرف مذہبی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے مگر خلیفہ سیاسی امور کابھی ذمہ دار ہوگا۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان جب خود متحد نہین ہیں اور ان کا شیرازہ بکھرا ہواہے تو وہ خلافت کے مسئلے پر کیسے متحد ہوسکتے ہیں۔ اس معاملے مین شیعہ اور سنی کیسے متحد ہوسکتے ہیں جن ہاں خلافت کی شرائط ہی الگ الگ ہیں اور اگر کسی طرح مسلمان متحد ہوجائیں تو امریکہ اور یوروپ کیسے چاہیں گے کہ دنیا بھر کے مسلمان کسی ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں اور اس کے لئے چیلنج بن جائیں۔           

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 566