donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jaat, Gojar, Patel Ke Baad Ab Maratha Reservation ki Tahreek - Magar Musalman Ko


جاٹ ،گوجر، پٹیل کے بعداب مراٹھا ریزرویشن کی تحریک

 

مگر مسلمان کو۔۔؟


غوث سیوانی، نئی دہلی


    مہارشٹر جس برادری کے نام پر بنا، جن کے نام کے بغیر مہاراشٹر کی تاریخ نامکمل ہے، وہی مراٹھا سماج آج سڑکوں پر ہے۔ جس مراٹھا سماج نے 17 ویں صدی میں دہلی سے لے کر افغانستان تک بھگوا لہرایا، وہی سماج بھگوا لے کر آج پھرسڑکوں پر ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اب صرف اس کا نام بچا ہے اور وہ اس قدر پچھڑچکا ہے کہ اسے تعلیمی اور اقتصادی ریزرویشن کی ضرورت ہے۔ افسانوی کردار کے حامل مراٹھا لیڈر پسماندہ ہیں تو ریاست میں اقتدار بھی مراٹھا کے بجائے اب ایک برہمن چہرے دیویندر فڑنویس کے ہاتھ میں ہے۔ ریاست میں تقریبا تیس فیصد آبادی مراٹھوں کی ہے مگر وہ اقتدار سے دور ہیں۔ گزشتہ تین سال سے خشک سالی کے چلتے مراٹھا کسان پریشان ہیں۔ قرض میں ڈوبے ہیں اور سب سے زیادہ خودکشی بھی مراٹھا کسانوں نے کی ہیں۔ روایتی طور پر کسان رہنے والے اس معاشرے کو لگتا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں مراٹھے پچھڑ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مدت تک پرسکون رہے مراٹھوں کے غصے کی چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔وہ سڑکوں پر ہیں اور آئے دن ان کے جلوس شاہراہوں پر نکل آتے ہیں۔ ان کا نہ تو کوئی ایک لیڈر ہے، اور نہ ہی کوئی سیاسی پلیٹ فارم۔ تاہم ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی پارٹیاں اور لیڈر تحریک میں اپنے حامیوں کو بھیج رہے ہیں۔ اس وقت مراٹھا سماج کے دو بڑے مطالبات ہیں۔پہلا مطالبہ ہے کہ مراٹھوں کو ریزرویشن دیا جائے اور دوسرایہ ہے کہ دلت ایکٹ میں تبدیلی کی جائے، تاکہ کسی بے گناہ کو پھنسایا نہ جا سکے۔ مراٹھوں کو لگتا ہے کہ ریزرویشن ملا تو تعلیمی اداروں میں داخلہ اور سرکاری نوکری کا راستہ نکلے گا۔ مراٹھوں میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ  ہے۔ خشک سالی اور کاشت کاری میں نقصان کے سبب کسان خسارے میں ہیں۔ کاشت میں اب اتنی کمائی نہیں رہی۔ کئی جگہوں پر کسانوں نے قرض لے کر بچوں کو پرائیویٹ کالجوں میں پڑھائی کے لئے بھیجا، لیکن انھیں نوکری نہیں ملی۔  ایسے میں ظاہر ہے کہ انہیں ریزرویشن ہی سب سے آسان طریقہ کے طور پر نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ کانگریس سرکار نے انھیں ریزرویشن دیا تھا جس پر کورٹ نے روک لگادیا تھا۔ اب عام مراٹھے سڑکوں پر اترآئے ہیں اور قانون بناکر دوبارہ ریزرویشن دینے کی مانگ کر رہے ہیں۔ کانگریس سرکار نے مراٹھوں کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں کو بھی ریزرویشن دیا تھا مگر اس وقت مسلمانوں کی کوئی بات نہیں ہے، ماضی میں بھی انھیں کسی نے نہیں پوچھا اور آج بھی کوئی ان کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس سے پہلے ہریانہ کے جاٹ، راجستھان کے گوجر اور گجرات کے پٹیل ریزرویشن کے لئے تحریک چلا چکے ہیں اور انھیں قانون بناکر ریزرویشن بھی دیا گیا تھا مگر ہندوستان میں سب سے پسماندہ مسلمان کی پسماندگی پر صرف سیاست ہوتی ہے۔ 

ریزرویشن کے لئے تحریکیں

    ہریانہ کے جاٹوں اور راجستھان کے گوجروں کے بعد گجرات کے پٹیلوں کو بھی ریزرویشن دیا گیا مگر اس کے اصل حقدار مسلمانوں کو ریزرویشن کے نام پر اب تک صرف ڈھینگا دکھایاگیا ہے۔ ہرقسم کے سروے اور تمام قسم کی جانچ کمیٹیوں نے بار بار کہا ہے کہ اس ملک میں مسلمان سے بڑھ کر ریزرویشن کا حقدار کوئی دوسرا طبقہ نہیں مگر مسلمانوں کے نام پر صرف سیاست ہوئی ہے۔ اب تک ان سبھی برادریوں کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا جاتا رہاہے جو کھلی غنڈہ گردی پر اترتی رہی ہیں، جنھوں نے ملک اور قوم کا کروڑون کا نقصان کیا ہے۔ جنھوں نے ریلوں کو آگ لگائی، سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور عوام سے حکومت تک کو دہشت زدہ کیا لیکن اگر مسلمانوں نے کبھی زبان سے بھی ریزرویشن کی بات کی تو انھیں ملک کا غدارکہہ کر پاکستان جانے کا حکم صادر کردیا گیا۔ کچھ دن قبل ہریانہ میں جاٹوں کو ریزویشن دینے کے بعد اب پٹیل ریزورویشن تحریک کے دباؤ کے پیش نظر گجرات کی بی جے پی حکومت نے جنرل کلاس میں پاٹیداروں سمیت اقتصادی طور پر پسماندہ لوگوں کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کاگزشتہ ایام میں اعلان کیا۔ اس اعلان کے مطابق چھ لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی والے خاندان ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے۔ تاہم ہاردک پٹیل کی قیادت والی تنظیم نے اس اعلان کو مسترد کر دیاہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے کہا تھاکہ اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کا اعلان دھوکہ ہے اور یہ پٹیل برادری کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہے۔ ریزرویشن کایہ فیصلہ بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے کور گروپ کی میٹنگ میں لیا گیا تھا جس میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ بھی شامل ہوئے تھے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا جب پارٹی، بلدیاتی انتخابات  کے نتائج کی وجہ سے فکر مند ہے اور ریاست میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔اس فیصلے سے سپریم کورٹ سے طے کی گئی 50 فیصد کی ریزرویشن کی حد کی خلاف ورزی ہوگی لیکن ریاستی حکومت نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو لے کر سنجیدہ ہے اور اس کے لئے قانونی طور پر جنگ لڑے گی۔ پٹیلوںکے لئے ریزرویشن کی تحریک چلانے والے ہاردک پٹیل نے جنرل کلاس کے لوگوں کو ریزرویشن دینے کے حکومت کے فیصلے کوگمراہ کن بتایا اور لالی پاپ کہہ کر مسترد بھی کردیاتاہم پٹیلوں کی ایک دوسری تنظیم سردار پٹیل گروپ (ایس پی جی) نے حکومت کی اس پہل کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اس اسکیم سے پٹیل کمیونٹی کو کتنی اور کس حد تک مدد ملے گی، وہ اس کا جائزہ لیں گے۔ اپوزیشن کانگریس نے بھی کہا کہ اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لئے 10 فیصد ریزرویشن کا اعلان دھوکہ ہے اور یہ پٹیل برادری کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہے۔

نئی قسم کی سیاست کی شروعات

گجرات میں پٹیلوں کو ریزرویشن دینے کا مطلب ہر کوئی سمجھتا ہے،یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خود گجرات میں وزیراعظم مودی کے پائوں تلے کی زمین نکلتی جارہی ہے۔بہار انتخابات کے دوران آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ریزرویشن نظام کا جائزہ لینے کی بات اٹھا کر طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ تب بہار میں نسلی کوٹے کے اثرات بھانپتے ہوئے مودی حکومت نے بار بارکہا تھا کہ وہ ریزرویشن سے کوئی چھیڑخانی نہیں کرے گی۔ اب گجرات نے انہیں موقع دے دیا ہے۔ وہاں بی جے پی کی نیا ڈانواڈول ہے، اس لئے پٹیلوں کو فائدہ دینے کے ساتھ ساتھ وہ ڈبل ریزرویشن کی شروعات کرسکتی ہے۔ شاید وزیراعظم نریندرمودی اونچی ذاتوں کے ووٹ بینک کو سیدھا فائدہ دینا چاہتے ہیں۔حالانکہ اونچی ذاتوں کا فیصد طے نہیں ہے۔ منڈل کمیشن نے 1982ء میں اعلی ذاتوں کا تناسب 25فیصد بتایا تھا۔ سترہ سال بعد، قومی سیمپل سروے نے کہا 35فیصد۔ اب غریب اعلی ذات کو ریزرویشن دینا ایک الگ سیاست ہو سکتی ہے۔ چونکہ ملک میں اب سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر طاقتور قومیں ریزرویشن مانگ رہی ہیں،گجرات کے پٹیل، ہریانہ میں جاٹ،اور اترپردیش وراجستھان میں گوجر۔ایسے میں اعلی ذات خود کو بری طرح ٹھگا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ اس لئے ہر ریاست میں تحریک پر اتارو قوموں کو براہ راست کوٹہ دینے کے ساتھ ہی، اقتصادی بنیاد پر غریب اعلی ذات کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے۔

ریزرویشن کی حد کیا ہے؟

    آئین میں ریزرویشن کی حد مقرر ہے۔ سپریم کورٹ نے 50 فیصد سے زائد ریزرویشن پر روک لگا رکھی ہے۔ پھر یہ لاگو کیسے ہوں گے؟ یہ سوال اس وقت اہم ہے۔ راجستھان کی مثال لیں۔ وہاں کوئی دس سال پہلے گوجر سمیت چار برادریوں کو پانچ فیصد اور اعلی ذات کے لئے چودہ فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا گیا لیکن معاملہ کورٹ میں پھنس گیا پھر گزشتہ سال وسندھرا حکومت نے دونوں گروپوں کے لئے مختلف بل پاس کروائے لیکن 50 فیصد سے زائد ریزرویشن ہو جانے کی وجہ سے اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تمل ناڈو میں 69فیصڈریزرویشن لاگو ہے ۔ وہاں انہوں نے شروع سے اسمبلی سے منظور خاص قانون کے تحت یہ لاگو کر رکھا ہے، پھر بھی جب سپریم کورٹ نے مشہور اندرا ساہنی کیس میں منڈل رپورٹ پر مکمل فیصلہ سنایا تو 50 فیصد کی حد واضح طورپر طے کر دی لیکن تمل ناڈو نے اگلے ہی سال، 1994 میں، اسمبلی سے نیا قانون پاس کر اسے نافذ کیا۔

راجستھان میں بھی مطالبہ شروع

    گجرات میں اعلی ذاتوں کو اقتصادی بنیاد پر 10 فیصد ریزرویشن کا راستہ صاف ہونے کے ساتھ ہی اب راجستھان کے اعلی ذات کی توقعات کوپر لگ گئے ہیں۔ راجستھان میں پیشرو اشوک گہلوت حکومت نے اعلی ذات قوموں کو 14 فیصد ریزرویشن دئے جانے کو لے کر اسمبلی میں بل منظور کیا تھا۔ اس 14 فیصد ریزرویشن کو لاگو کئے جانے کے مطالبے پر اعلی ذات برادریوں نے ایک جٹ ہوکر تحریک چھیڑا ہوا ہے۔یہ قومیں یہاں وقتا فوقتا اقتصادی بنیاد پر ان کے لئے مقرر کئے گئے 14 فیصد ریزرویشن نظام کو لاگو کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 

مسلمانوں کو ریزرویشن کیوں نہیں؟

    جہان اب ملک کے خوشحال طبقات کو بھی ریزرویشن دیا جا رہاہے وہیں اب تک مسلمانوں کو ریزوریشن کے نام پر صرف سیاست ہورہی ہے۔پسماندہ مسلمان برادریاںاوبی سی زمرے میں ریزوویشن پاتی ہیں مگر مسلمانوں کا الگ حصہ نہ ہونے کے سبب انھیں کم ہی فائدہ ملتا ہے۔ دوسری طرف دلت اور قبائلی مسلمانوں کو ایس سی ایس ٹی زمرے میں ریزرویشن نہیں ملتا۔ مسلم ریزرویشن پر کانگریس، سماج وادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی،جنتادل یو، راشٹریہ جنتادل، ترنمول کانگریس اور کمیونسٹوں کا رویہ یکساں ہے۔ سماج وادی پارٹی نے تو وعدہ کر رکھا تھا کہ وی یوپی میں مسلمانوں کو بیس فیصد ریزرویشن دے گی مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اسے فراموش کر گئی۔  نتیش کمار نے پچھلے دنوں کہا کہ دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایس سی-ایس ٹی کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدھ مت اور سکھ مذہب کے لئے لوگوں کو ایس سی-ایس ٹی کا درجہ مل گیا، پھر عیسائیوں اور مسلمانوں کو کیوں اس سے محروم رکھا گیا؟ حالانکہ نتیش کمار کو تب یہ بات دھیان میں نہیں آئی جب ایک مدت تک وہ مرکز کے اقتدار میں شامل تھے۔گویا یہ بات صاف ہے کہ مسلمانوں کے نام پر صرف سیاست ہوگی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 766