donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Inteha Pasand Hindutvadi Tanzeem Bajrang dal Par Pabandi Kiyon Nahi


انتہا پسند ہندتوادی تنظیم بجرنگ دل پر پابندی کیوں نہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    بجرنگ دل ایک سخت گیر ہندتوادی تنظیم ہے۔وہ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کا نوجوان چہرہ ہے۔ اس کی شروعات 1 اکتوبر 1984 میں سب سے پہلے بھارت کے اتر پردیش صوبہ سے ہوئی اور بعد میں پورے ہندوستان میںاس کی توسیع ہوئی۔اس کے سب سے پہلے کنوینر تھے ونے کٹیار اور اس وقت راجیش پانڈے کے ہاتھ میں دل کی باگ ڈور ہے۔ ہندوتو اس پریوار کا بنیادی فلسفہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ بجرنگ دل کے ارکان ہیں جن میں سے بیشتر کارکن ہیں۔بجرنگ دل بھی آرایس ایس کی شاکھا کی طرح اکھاڑے چلاتی ہے،جن کی تعداد ڈھائی ہزار کے آس پاس ہے۔ بجرنگ دل کا اصل مقصد جو بتایا جاتا ہے وہ  ہے ہندووں کا تحفظ اورہندو ثقافت کا فروغ ۔

بجرنگ دل کا پس منظر

    اکتوبر 1984 میں وشو ہندو پریشد نے ایودھیا میں باقاعدگی سے شوبھایاترا نکالنی شروع کی۔ ان جھانکیوں کو رام جانکی رتھ یاترا کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا ظاہری مقصد تھا ہندو معاشرے میں بیداری اور شعور پیدا کرنا۔حالانکہ پس پردہ وہ ہندووں اور مسلمانوں کے بیچ اشتعال انگیزی کرنا چاہتے تھے اور ان کا پلان کامیاب بھی ہوا کہ پورے یوپی میں جگہ جگہ فسادات شروع ہوگئے جن میں بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرہ تقسیم ہونے لگا۔ اسی کا فطری نتیجہ تھا بابری مسجد کا انہدام۔ اسی دوران وشو ہندو پریشد نے اکثریتی ہندوفرقہ کے تحفظ کے نام پر بجرنگ دل کو قائم کیا۔کہا گیا کہ رام جانکی رتھ یاترا کی غیرسماجی عناصر سے حفاظت کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے۔بجرنگ دل کے اولین کنوینر اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبرپارلیمنٹ ونے کٹیار بتاتے ہیں کہ بجرنگ دل کا قیام وشو ہندو پریشد کی نوجوان ونگ کے طور پرعمل میں آیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ’’ سب سے بڑا مقصد ایودھیا میں رام جنم بھومی کو آزاد کرانا تھا۔ غیر ملکی حملہ آوروں نے جس طرح ہمارے مٹھوں،مندروں کو تباہ کیا، اس کے بارے میں معاشرے کو بتانا اور آگے ایسا نہ ہو، اس کے لئے معاشرے کو منظم کرنا ہمارا مقصد ہے۔ہم اس زمین پر گائے ماتا کا خون بہنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کو باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ لالچ اور دھوکے سے ہونے والے تبدیلیٔ مذہب کو روکنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ان دنوں مرکز اور کئی ریاستوں میں بی جے پی کی سرکار ہے جس کے لئے بجرنگ دل کام کرتا رہا ہے۔ دل کے لوگوں کو شکایت ہے کہ سرکار کی طرف سے اسے توجہ نہیں مل رہی ہے۔یہ شکایت وشوہندو پریشد کو بھی ہے۔ حالانکہ مودی سرکار آرایس ایس کونظر انداز نہیں کر رہی ہے مگر ان تنظیموں کو لگتا ہے کہ حکومت بنوانے میں ان کی شرکت رہی ہے مگر اب انھیں نظرانداز کیا جارہاہے۔

سنگھ پریوار کیا ہے؟

    راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ایک بھگوا تنظیم ہے جس کے تحت بجرنگ دل سمیت بہت سی تنظیمیں آتی ہیں۔ اس پورے گروپ کو سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔اس گروپ کی دیگر تنظموں کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی ، وشو ہندو پریشد ،  درگا واہنی، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، بھارتیہ مزدور یونین ،سودیشی جاگرن منچ، سیوا بھارتی، ودیا بھارتی، وگیان بھارتی ، بھارتیہ کسان یونین ، بھارتیہ ونواسی کلیان آشرم وغیرہ۔

مسلح ہندو سینا

     چند سال قبل میڈیا میں خبر آئی تھی کہ بجرنگ دل ملک بھر میں ’ہندو فورس‘ کھڑی کرنے کی تیاری میں ہے۔بجرنگ دل ہر ضلع میں اس کا مرکز قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں ہندو نوجوانوں کو بندوق اور اسلحے چلانے کی تربیت دی جائیگی۔اسی کے ساتھ نئی نسل کو لاٹھی وغیرہ کی بھی تربیت دی جائیگی۔ حالانکہ اسلحے چلانے کی تربیت کے کیمپ بجرنگ دل کی طرف سے ہوتے رہتے ہیں جن کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے ان کیمپوں کے خلاف کبھی کارروائی بھی نہیں کی گئی۔گویا اس تنظیم کو بی جے پی، کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں کی خاموش حمایت حاصل رہی ہے جنھوں نے اپنی سرکاروں کے دوران انھیں اسلحے کی تربیت سے باز نہیں رکھا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی پابندی عائد کی۔بجرنگ د ل ہندو سینا کے لئے ہر ضلع میں ۲سو گز کاایک میدان بھی بنانا چاہتا ہے جس کا استعمال مستقل طور پر دل کے ارکان کی تربیت کے لئے ہوسکے۔بجرنگ دل کے ایک لیڈر کا کہنا تھا ان سنٹرس میں نوجوانوں کو لاٹھی اور بندوق چلانے کی تربیت دی جائے گی۔ اس کا مقصد ہندوتو کے نام پر بڑی طاقت کھڑی کرنا ہے۔ ہرمرکز میں ہنومان کی 2-3 فٹ اونچی مورتی لگائی جائے گی۔اس سے پہلے بجرنگ دل ’’ملن کیندر‘‘ چلاتا تھا۔ دل کے ذمہ داران کا ماننا ہے کہ اس سے منشیات اور دوسری برائیوں کی طرف جا رہی ہے نوجوان طاقت کو ایک سمت ملے گی۔ ساتھ ہی ہندوتو کی تشہیرہوگی اور ہندوتو صرف ایک خیال نہیں بلکہ قوت بنے گا۔ایک بجرنگ دل لیڈر کے مطابق ہندو فورس کھڑی کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب بھی ہندوتو کو خطرہ محسوس ہوگا تو یہ طاقت کام آئے گی۔

بجرنگ دل پر الزامات

    ہندو دیوتا ہنومان کے نام پر قائم بجرنگ دل پر طرح طرح کی تخریبی کارروائیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ گجرات فسادات میں بجرنگ دل کے ملوث ہونے کی خبریں سامنے آئی تھیں اور دنگے بھڑکانے کے لئے میڈیا نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔اس کے بعض ارکان اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تھی جس میں بابو بجرنگی بھی تھا جو اب کورٹ سے سزا پاچکا ہے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اسی کے ساتھ ہندتو اور ہندو تہذیب کے نام پر ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں کو مارنے پیٹنے کی خبریں بھی پریس میں آئی تھیں۔’’لوجہاد‘‘ کے نام پر ماحول بگاڑنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا الزام بھی بجرنگ دل پر لگتا رہا ہے۔ وہ پورے ملک اور خاص طور پر اترپردیش میں ’’بہولائو،بیٹی بچائو‘‘ تحریک بھی چلا رہا ہے۔ اس کے تحت وہ ہندووں کو اکساتا ہے کہ مسلمان لڑکیوں سے شادی کریں اور ہندولڑکیوں کو مسلمان لڑکیوں سے شادی کرنے سے روکتا ہے۔بجرنگ دل کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب اس تنظیم پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے الزام لگے ہیں۔ اس پر پابندی کا مطالبہ بھی بار بار اٹھتا رہا ہے مگر کسی سرکار نے اس کی مبینہ غیرقانونی حرکتوں پر نوٹس نہیں لیا۔

عیسائیوں پر حملے

    بجرنگ دل پر عیسائی مشنریوں کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔کئی جگہوں سے اس قسم کی خبریں آئیں کہ اس نے ان کو سوشل ورک سے روکا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بجرنگ دل الزام لگاتا ہے کہ عیسائی مشنریاں لالچ دے کر ہندووں کا مذہب تبدیل کراتی ہیں اور اس کے سبب عیسائیوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔حالانکہ فادر ڈومینک جارج کا الزام ہے کہ اڈیشہ اور کرناٹک میں عیسائی مشنریوں پر حملے ہوئے تھے جن میں بجرنگ دل کا ہاتھ تھا۔کچھ جگہوں پر حملوں میں وشوہندو پریشد کا بھی ہاتھ ہے۔غور طلب ہے کہ حال ہی میں کرناٹک کے ہمپی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلراور بائیں نظریات کے مصنف پروفیسر ایم ایم کلبرگی کے قتل کا الزام بھی بجرنگ دل پر لگا ہے اور ایک شخص کو پروفیسر بھگوان کو دھمکی دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بھاویش شٹی نام کے اس شخص کا تعلق بجرنگ دل سے بتایا جاتا ہے۔

تخریبی کارنامے

    چند سال قبل کانپور میں بم بناتے ہوئے دو افراد ہلاک ہو گئے تھے،جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق بجرنگ دل سے تھا۔مدھیہ پردیش میں بجرنگ دل کے کچھ کارکنوں پر بم بنانے اور تخریبی کاروائیوں کے الزام لگے تھے۔ سال 2006 میں ناندیڑ میں بم بناتے وقت بجرنگ دل کے دو مبینہ رکن مارے گئے تھے۔سماجی کارکن جاوید لطف کہتے ہیں کہ ناندیڑ میں بم بنانے کے کام میں بجرنگ دل شامل تھا اور مہاراشٹر پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔جاوید لطف کے مطابق ’’ انسداد دہشت گردی دستے نے پوری چھان بین کے بعد جو چارج شیٹ تیار کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ سال 2003 اور 2004 میں پربھنی، جالنہ اور پورنا کی مسجدوں میں ہوئے دھماکوں میں یہ سب شامل تھے۔ ان لوگوں نے پونا میں بم بنانے کی تربیت لی تھی۔ ‘‘

    آر ایس ایس کے رکن رہ چکے اور اب تنظیم پر گہری نظر رکھنے والے ڈی گوئل کہتے ہیں کہ بجرنگ دل جیسی تنظیمیں آئین کو بھی نہیں مانتیں ۔ ان پر روک لگانا ضروری ہے۔وہ کہتے ہیں، وشو ہندو پریشد نے آج تک جو کچھ بھی کیا، بھارتی آئین کے حساب سے غلط ہے۔ فرانس کے ماہرمعاشرتی امور کرسٹوفر جیفری لوٹ نے اپنے ایک تازہ مضمون میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تنظیم کی سرگرمیاں انتہاپسندانہ رہی ہیں۔ انھوں نے مزید لکھاہے  اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں اس کے ارکان کو کشمیر بھیجا گی اتھا تاکہ ہندووں کا تحفظ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 493