donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Firoz Aik Bad Qismat Gandhi Jise Uski Aulad Ne Bhi Yad Nahi Rakha


فیروز،ایک بدقسمت گاندھی جسے اس کی اولاد نے بھی یاد نہیں رکھا۔


کرپشن کے خلاف لڑنے والے فیروز گاندھی مسلمان تھے؟اندرا گاندھی نے نکاح کے وقت اسلام قبول کیا تھا؟


غوث سیوانی کی تحقیقی تحریر


           ۱۲،ستمبر۲۰۱۴ء کو فیروز گاندھی کی پیدائش کو ایک سودوسال پورے ہوگئے۔ یہ تاریخ ابھی دومہینے قبل بہت خاموشی سے گزر گئی۔ سال ۲۰۰۱۲ء انکی پیدائش کی صدی کاسال تھا،مگر انھیں کسی نے بھی یاد نہیں کیا۔ ان کی اولاد نے بھی نہیں۔ وہ فیروزگاندھی جن کا ایک بیٹا ملک کا وزیراعظم ہوا، بیوی وزیراعظم ہوئی اور سسر بھی ملک کے اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے۔ ساتھ ہی ان کی اولاد کے ہاتھوںمیں اب بھی ملک کے اقتدار کی چابی ہے۔ ان کا خاندان آزاد بھارت کا شاہی خاندان سمجھا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد اس خاندان کے افراد نے ڈائرکٹ یا اِن ڈائرکٹ جس قدر اس ملک پر حکومت کی ،کسی دوسرے خاندان نے نہیں کی۔باجود اس کے ان کی اولاد نے انھیں بھلا دیا ،یا پھر دانستہ طور پر انھیں یاد کرنا نہیں چاہتی۔آخر کیا سبب ہے کہ راجیو اور اندرا گاندھی کی سالگرہ پراخبارات کو آٹھ آٹھ کروڑ کے ا شتہارات دینے والی حکومت نے فیروز گاندھی کو بالکل ہی نظر انداز کردیا۔ حالانکہ ابھی حال تک حکومت کی اصل مالکن فیروزگاندھی کی بہو سونیا گاندھی ہی تھیں،اور ان کے پوتے راہل گاندھی کی حکومت میںدخل اندازی تھی۔ ان دونوں ماں بیٹوں کی مرضی کے بغیر حکومت میں ایک پتہ نہیں ہل سکتا تھا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ فیروز گاندھی کونظرانداز کرنے کی کوشش ہوئی ہو،بلکہ انھیں ہمیشہ ہی ان کی اولاد نے نظرا نداز کیا ہے۔ کبھی ان کے نام سے نہ تو کوئی راستہ منسوب کیا گیا اورنہ کسی یوجنا کا نام رکھا گیا۔ جب کہ اس ملک میں سب سے زیادہ سڑکوں، علاقوں اور یوجنائوں کے نام اسی خاندان کے افراد کے نام پر ہیں۔ راجیو چوک، اندرا چوک، جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم،اندرا گاندھی اسٹیڈیم، جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی،اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایر پورٹ ، جواہر روزگار یوجنا ، اندراآواس یوجنا،راجیو گاندھی سدبھانا ایوارڈاور بھی نہ جانے کیا کیا اس خاندان کے افرادسے منسوب ہے۔یہیں تک نہیں سنجے گاندھی کے نام پر بھی بہت سے علاقوں کے نام ہیں اور شاید مستقبل میں راہل،پرینکا، اور ان کے بچوں کے نام پر بھی بہت سی جگہوں اور یوجنائوں کے نام رکھے جائیں گے،مگر فیروز گاندھی کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور تاریخی ہے کہ آخر انھیں ان کی اولاد نے کیوں فراموش کردیا بلکہ یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی اولاد ان کے نام سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔

راہل، اپنے دادا کی قبر پر:

 ابھی چند سال قبل کی بات ہے کہ راہل گاندھی الہ آباد کے دورے پر گئے تو رات کی خاموشی میں اپنے چند سیکوریٹی والوں کے ساتھ چپکے چوری فیروز گاندھی کی قبر پر گئے۔ اس خبر کو میڈیا سے چھپائے رکھا گیا گویاوہ اپنے دادا کی قبر پر نہیں کسی بدنام جگہ پر جارہے ہوں اور اگر دنیا کو پتہ لگ گیا تو قیامت برپا ہوجائے گی۔یہ خبر صرف ایک اخبار میں شائع ہوئی اور وہ تھا پارسیوں کا کمیونیٹی اخبار۔ اس خبر کو اب بھی انٹر نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔

فیروزگاندھی کون؟

فیروز گاندھی کانگریس کے بہت سینئر لیڈر تھے۔ ان سے جواہرلعل نہرو بھی خوفزدہ رہتے تھے۔۱۹۳۰ء میں انھوں نے کانگریس جوائن کیا ،جنگ آزادی میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اس کی پاداش میں گرفتار ہوکر جیل گئے۔ وہ فیض آباد جیل میں انّیس مہینے قید رہے۔فیروز گاندھی،مہاتما گاندھی کے بہت قریب تھے اور گاندھی جی انھیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایک مرتبہ فیروز کی ماں گاندھی جی سے ملنے گئیں تو گاندھی جی نے کہا کہ فیروز زبردست انقلابی ہیں اگر ایسے سات افراد مجھے مل جائیں تو سات دن میں ملک آزاد ہوجائے۔

فیروز گاندھی ملک کی عبوری پارلیمنٹ کے ممبر تھے، پھر پہلی لوک سبھا کے لئے ۱۹۵۲ء میں منتخب ہوئے۔ وہ دوسری لوک  سبھا کے لئے ۱۹۵۷ء میں بھی منتخب ہوئے۔فیروز گاندھی انڈین آئل کارپوریشن کے پہلے چیرمین بنے،ساتھ ہی وہ اپنے دور کے ایک بڑے اخبار نیشنل ہیرالڈ اور ہندی روزنامہ نوجیون کے پبلشر تھے۔وہ میڈیا کی آزادی کے علمبردار تھے ،اسی لئے وہ اس سلسلے میں ایک پرائیویٹ بل بھی پارلیمنٹ میں لائے تھے،جوپاس ہوگیا تھا۔

فیروز گاندھی کی تعلیم الہ اباد کے ودیا مندر ہائی اسکول سے ہوئی تھی۔ کالج کی تعلیم اونگ کرشچین کالج سے ہوئی اور اس کے بعد اسکول آف اکانومکس،لندن گئے۔

کرپشن کے خلاف فیروز کی لڑائی:

فیروز گاندھی کو کرپشن کے خلاف لڑائی کی شروعات کرنے والا پہلا لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے بڑے معاشی گھوٹالے مندھرا اسکنڈل کا پردہ فاش کیا تھااور اسی وجہ سے اس وقت کے وزیرِ خزانہ ٹی ٹی کرشنم چاری کو مستعفی ہونا پڑا تھا،فائننس سکریٹری کو برخواست کیا گیا تھا اور صنعت کار ہری داس مندھرا کو جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔ فیروز گاندھی وزیرِ اعظم کے داماد تھے اور حکمراں پارٹی کے لوک سبھا رکن تھے اس کے باوجود انھوں نے اپنی ہی سرکار کے تحت ہورہی بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تھی،یہ ان کا حوصلہ تھا،جس کا تصور موجودہ حالات میں ممکن بھی نہیں ہے۔

فیروز،نہرو اور اندرا کے رشتے:

فیروز کے اس رویے نے جواہر لعل نہرو کو پریشان کر رکھا تھااور دونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہوگئی تھی۔ان کی بیوی اندرا گاندھی بھی ان حالات سے پریشان تھیں۔جب ۱۹۶۰ء میں صرف ۴۸،سال کی عمر میںان کا انتقال ہوگیا تو دونوں نے چین کی سانسیں لیں۔نہرو کے پرسنل سکریٹری ایم ۔او،متھائی نے اپنی کتاب  ''REMINENCES OF THE NEHRU AGE''  میںلکھا ہے کہ انھیں پی ایم او میں جانے کی اجازت نہ تھی اورمیاں بیوی الگ الگ رہتے تھے۔ان دنوں فیروز دوسری شادی کا پلان بنا رہے تھے۔

محبت اور سیاست:

اندرا اور فیروزنے محبت کی شادی کی تھی لیکن اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ نہرو کی بیوی اور اندرا کی ماں کملا  نہرو کا ٹی بی کے مرض سے سویزرلینڈ میں انتقال ہوچکاتھا،فیروز نے ان کی تیمارداری کی تھی۔ اندرا گاندھی بھی فیروز کی طرح لندن میں زیر تعلیم تھیں اور اس بیچ دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا۔آخر کار یہ قربت رشتے میں بدل گئی۔ NEHRU DYNASTY  کے مصنف کے این رائو کے بیان کے مطابق اندرا اور فیروز نے لندن کی ایک مسجد میںجاکر نکاح کرلیاتھا۔ اس کے لئے اندرا گاندھی کو اسلام قبول کرنا پڑا تھامگر مسٹر رائو نے اپنے دعوے کے حق میںکوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔مذکورہ کتاب کے مطابق جب ان حالات کی خبر مہاتماگاندھی کو ملی تو انھوں نے فوراً دونوں کو بھارت بلوایا اور ان کی شادی ویدک طریقے سے کرائی۔ انھوں نے فیروز جہانگیرخان کا نام تبدیل کراکر فیروز گاندھی کرایا۔ نہرو اس شادی کے حق میں نہیں تھے ،جس کے پیچھے ان کے سیاسی مفادات تھے،مگر انھیں آخرکار ہتھیار ڈالنا پڑا۔ یہ ۱۹۴۲ء کا واقعہ ہے۔ تاریخی  شواہد کے مطابق راجیو گاندھی کی پیدائش کے بعد اختلافات کے سبب اندرا اور فیروز الگ ہوگئے تھے۔کے این رائو نے لکھا ہے کہ سنجے گاندھی، فیروز گاندھی کی اولاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے شخص محمد یونس کی اولاد ہیں۔ یہ محمد یونس ایک بیوروکریٹ تھے اور اندرا گاندھی کے بہت قریبی تھے۔ یہ خارجہ معاملات میں ان کے مشیر تھے اور ترکی، انڈونیشیا،عراق واسپین میں سفیر بھی رہے۔یہ مجاہدآزادی تھے اور خان عبدالغفار خان کے قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ محمد یونس کا ۱۷، جون ۲۰۰۱ء میں راجدھانی دلی میں انتقال ہوا۔انھوں نے بھی اپنی یادداشتوںپر مشتمل ایک کتا ب لکھی،جس کا نام ہے PERSONS,PASSIONS& POLITICSاس کتاب میں انھوں نے اس سلسلے میں تو کچھ نہیں لکھا ہے البتہ یہ لکھا ہے کہ سنجے گاندھی کا اسلامی طریقے کے مطابق ختنہ کیا گیا تھا۔محمد یونس سنجے کی موت پر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ کسی مسلمان لڑکی سے شادی کریں۔

فیروز گاندھی کا مذہب:

فیروز گاندھی کا مذہب کیا تھا ؟یہ تحقیق کا موضوع ہوسکتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک پارسی تھے،لیکن شاید اس معاملے میں کچھ کنفیوزن ہے۔ان کے والد کا نام جہانگیرخان تھاجو کہ نواب خان کے نام سے مشہور تھے۔بعض روایتوں کے مطابق یہ ایک ایرانی مسلمان تھے ۔کے این رائو نے بھی یہی لکھا ہے۔البتہ ان کی ماں رتی مائی پارسی سے تبدیلی مذہب کرنے والی نومسلمہ تھیں۔ان کے خاندان کا سرنیم’’گھنڈی‘‘ ہوتا تھا۔ فیروز گاندھی کو جو پارسی کے طور پر مشہور کیا گیا یہ ہندستانی عوام کے مزاج اور یہاں کی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔فیروز جہانگیر خان عرف فیروزگاندھی اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے دوبھائیوں کے نام دوراب بہانگیر اور فریدون جہانگیر بتائے جاتے ہیں اور بہنوں کے نام تہمینہ اور علو ہیں۔ ایرانی مسلمانوں کے نام فارسی ہوتے ہیں یہ عام بات ہے مگر پارسیوں کے نام عربی نہیں ہوتے۔ ان کے بھائیوں کے نام کے الفاظ فارسی ہیں مگر ان کی بہنوں کے نام خالص عربی ہیں۔ اس سے اس سلسلے میں کچھ اشارہ ضرور ملتا ہے۔ فیروز کے رشتے داروں کا کچھ اتہ پتہ نہیں ملتا۔البتہ اک آدھ جن کے بارے میں کچھ خبر ملتی ہے اور وہ پارسی ہیں ،یہ وہ ہیں جن کی رشتے داری ان کی نومسلمہ ماں کی طرف سے تھی۔

فیروز گاندھی کی قبر آج بھی الہ آباد کے پارسی قبرستان میںموجود ہے۔ممکن ہے انھیں یہاں دفنانے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا ہو،جس کے تحت انھیں ایک پارسی کے طور پر مشہور کیا گیا۔اگر انھیں ایک مسلمان بتایا جاتا تو آج ان کی اولاد کو بھارت میں حکومت کرنا آسان نہ ہوتا۔حالانکہ پارسیوں کے طریقے کے مطابق ان کی لاشوں کو ایک اونچے مقام پر رکھا جاتا ہے،جہاں گدھ اور دوسرے مردارخور اسے کھاجاتے ہیں،لیکن فیروز کی لاش کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ بہرحال اس سے قطع نظر کہ فیروز گاندھی مسلمان تھے یا پارسی اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ ایک زبردست سیاستداں تھے اور ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 630