donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   BJP Aatish Feshan Ke Dahane Par


بی جے پی آتش فشاںکے دہانے پر


نریندر مودی کے خلاف بے چینی کی لہر


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     بھاجپا کے اندر اندر لاوہ پک رہا ہے؟ یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے؟ بھاجپا کے پرانے لیڈر شانتا کمار کا خط کیا بی جے پی کے اندرونی خلفشار کی جانب اشارہ نہیں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پارٹی کے اندر بھی ایک طبقہ نریندرمودی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بے قرار ہے؟ ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ ممبرپارلیمنٹ شانتا کمار نے پارٹی صدر امت شاہ کو جس طرح سے خط لکھا اور اسے میڈیا میں بھی عام کیا ،اسے لے کر پارٹی کے اندر تو بوال مچا ہوا ہے ہی ،ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں بھی طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جسے شانتا کمار اپنے ’’من کی بات‘‘ کہہ رہے ہیں وہ تنہا ان کے من کی بات نہیں ہے بلکہ لعل کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اس قبیل کے دوسرے لیڈروں کے من کی بات بھی ہے جنھیں مودی نے حاشیئے پر ڈال دیا ہے۔پارٹی کے وہ سینئر لیڈران جنھیں مودی نے’’مارگ درشک منڈل‘‘میں ڈالنے کے نام پر برف لگادیا ہے اور سردخانے کی زینت بنادیا ہے، آج وہ بے چین ہیں اور ان کے خلاف ایک موقع چاہتے ہیں۔ اس قسم کے سبھی لیڈران شانتا کمار کے ساتھ ہیں۔امید کی جارہی ہے کہ شانتا کمار کا لیٹر بم آخری حملہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے ابھی بہت سے حملے مودی کو جھیلنے پڑیںگے۔ ان کے خلاف جہاں کانگریس ایک طرف مورچہ کھولے ہوئے ہے ،وہیں دوسر ی طرف بھاجپائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موقع کی تاک میں ہے۔ اس خط کا اثر بہار کے اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو مل سکتا ہے جہاں اکتوبر میں الیکشن کی توقع ہے۔فی الحال شانتا کمار نے جو سوالا ت اٹھائے ہیں ان کے جواب دینا پارٹی کے لئے مشکل ہورہا ہے۔

شانتا کمار کا لیٹر بم    

    بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر شانتا کمار نے کہا ہے کہ ویاپم گھوٹالہ اور للت گیٹ کی وجہ سے پارٹی کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کی موجودہ قیادت میں مکالمے کی تھوڑی کمی ہے۔ شانتا کمار نے ان دو متنازعہ مسائل اور کئی دوسرے معاملات پر بی جے پی صدر امت شاہ کو ایک خط بھیجا تھا جسے ان کے فیس بک پر پوسٹ کیا گیا تھا۔خط کے کچھ حصے اخبارات میں کئی جگہ چھپے ہیں۔ ان کے اس خط کو لے کر سوشل میڈیا میں بھی خوب بحث ہورہی ہے۔انہوں نے یہ خط 10 جولائی کو امت شاہ کو بھیجا تھا لیکن انہیں ابھی تک پارٹی صدر کی طرف سے اس کا جواب حاصل نہیں ہوا ہے۔اگرچہ انہوں نے اپنے اس اقدام کو یہ کہہ کر مناسب ٹھہرایا ہے کہ ایسی کشادہ نظری صرف بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہی ہو سکتا ہے، کانگریس جیسے دل میں نہیں۔واضح ہوکہ پارٹی میں خیالات کے تبادلے کی کمی کی شکایت پارٹی کے دوسرے لیڈر پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے شانتا کمار کی فکر پر سیدھا بیان دینے سے  بچنے کی کوشش کی اور کہا ہے کہ، پارٹی رہنماؤں کو ضبط سے کام لینا چاہئے۔ میڈیا سے بات چیت میں شانتا کمار نے اپنا موقف یہ کہہ کر رکھا کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے خدمت کر رہے ہیں اور پارٹی کے ہمدرد ہیں۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی

    جہاں ایک طرف بی جے پی اور مرکزی سرکار کے افراد للت گیٹ اور ویاپم گھوٹالے پر جواب دینے میں دقت محسوس کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف شانتا کمار نے اپنی ہی پارٹی اور سرکار کے خلاف سوال اٹھاکر کھلبلی مچادی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ویاپم گھوٹالے کی وجہ سے راجستھان سے لے کر مہاراشٹر تک بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے طریقہ کار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔شانتا کمار کے مطابق مدھیہ پردیش کے ویاپم معاملے کی وجہ سے بی جے پی کا ہر ایک کارکن سر جھکا کر چل رہا ہے۔ حکومت کامیابیوں کا جشن منا رہی ہے لیکن ویاپم اور اور تنازعات کے چلتے ان کارناموں پر پانی پھر گیا۔ شانتا کمار نے لکھا ہے کہ اگر ان تنازعات سے نمٹنے کے لئے پختہ انتظام نہیں کیا گیا تو عوام ہمیں معاف نہیں کرینگے اور مستقبل میں ہمیں اس کے ضمنی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سینئر لیڈر نے پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کو خط لکھ کر کہا کہ آج اخبارات کے پہلے پیج اور تمام چینلز جس طرح کی کہانیاں لکھ رہے ہیں اس سے کسی بھی ہندوستانی کا مایوس ہونا فطری ہے۔

پارٹی کی تصویر پر داغ

    شانتا کمار نے کہا کہ ویاپم گھوٹالے کے الزام سے پارٹی کی تصویر پر داغ لگ رہا ہے۔ ہماری ہی غلطی رہی کہ وقت رہتے ہوئے ان معاملات پر پتہ ہونے کے باوجود کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کا خمیازہ پارٹی کو ملک بھر میں چکانا پڑ رہا ہے۔شانتا نے کہا کہ پارٹی پر کئی حلقوں میں الزام لگ رہے ہیں۔ اگر وقت رہتے ان الزامات کی جانچ کی گئی ہوتی تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔ اگر ہم اسے روکنے میں کامیاب نہ رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

اندرونی لوک پال کی ضرورت

    شانتاکمار نے اپنے خط میں کہا ہے کہ تنظیم کو صحیح طور سے چلانے کے لئے مرکزی اور ریاستی سطح پر کئی کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پارٹی کی نئی ضابطہ کمیٹی کی تشکیل کی جائے۔ اس کمیٹی میں پارٹی کے ایسے تجربہ کار کارکنوں کو لیا جائے، جنہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہو۔ مرکزی اور ریاستی سطح پر یہ کمیٹی ایک لوک پال کا کام کرے۔ کمیٹی میں اتنی جرأت ہونی چاہئے کہ اقتدار میں بیٹھے لیڈروں کو صحیح وقت پر ان کی غلطی کا احساس کروا سکیں۔

پارٹی باوقار سیاست سے دور ہوئی

    بھاجپا ممبر پارلیمنٹ شانتا کمار نے لکھا مجھے یاد ہے 1951-52 میں بھارتیہ جن سنگھ بننے کے بعد سب سے زیادہ زور باوقار سیاست پر دیا جاتا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ اقتدار میں آئے۔ اقتدار میں آنے پر بہت کچھ بدلا۔ اقدار کی سیاست سے بھی کہیں کہیں اقتدار کی سیاست میں معاہدے کرنے شروع کئے۔ اس سب کے بعد بھی ہم باقی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مختلف نظر آتے رہے۔لیکن اقتدار کی سیاست نے الگ پہچان والی ہماری پارٹی کی شناخت کو آہستہ آہستہ خراب کرنے کی کوشش ضرور کی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ مرکز میں کانگریس کی 10 سال کی حکومت سے ملک کے عوام مایوس تھے۔ ایسے میں نریندر مودی کی ذاتی زندگی کی روشنی اور گجرات کی ترقی کی کہانی سب طرف پھیلی۔ ان کی قیادت میں الیکشن لڑنے سے پورے ملک میں امید کی کرن جاگی۔

شیوراج کا تیکھا جواب

    مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے بی جے پی کے سینئر رہنما شانتا کمار کے خط کا جواب دیا ہے۔حالانکہ یہ خط ان کے نام نہیں بلکہ امت شاہ کے نام تھا مگر چونکہ ویاپم کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے گئے تھے لہٰذا شیوراج چوہان کے تن بدن میں آگ لگنا فطری تھا۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے ایک ایک کر کے شانتا کمار کے الزامات کا سخت الفاظ میں جواب دیا ہے اور خود شانتا کمار پر کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔شیوراج سنگھ نے شانتا کمار پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ بغیر حقائق کی جانچ پڑتال کئے الزام لگا رہے ہیں۔شیو راج نے خط کو تضادات کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پارٹی صدر کو خط لکھنا، اس کی میڈیا میں تشہیر کرنا اور دوسری طرف ضابطہ کمیٹی تشکیل کرنے کا مشورہ دینامتضاد باتیں ہیں۔شیوراج سنگھ نے شانتا کمار کو مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ پہلے ہماچل پردیش میں کانگریس کے دور اقتدار میں ہو ئی بدعنوانی کو لے کر عوامی تحریک کیوں نہیں چلاتے تھے؟

    وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے لکھا ہے کہ اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں پر اپوزیشن کی طرف سے لگائے جا رہے الزامات کی معلومات حاصل کئے بغیر سوال اٹھانا غیر ضروری اور غیر متوقع ہے۔ وزیر اعلی نے کہا ہے کہ آپ پارٹی کے تجربہ کار اور سینئر لیڈر ہیں۔مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ آپ نے پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کو خط لکھ کر خود انہی اقدار کو نظر انداز کیا ہے، جس کی آپ نے اپنے خط میں وضاحت کی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک رہی ویاپم کی بات تو میں نے ہی اس معاملے کی جانچ کرائی۔ جس کی وجہ سے کئی ملزم آج جیل میں ہیں۔ منگڑھت اور بے بنیاد الزامات سے ہمیں قطعی متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے اپنے آپ پر فخر ہے کہ میں نے بغیر کسی خوف اور جانبداری کے ویاپم کی جانچ کروائی۔

    وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش نے ویاپم معاملے میں صفائی دیتے ہوئے اپنے دو صفحاتی خط میں لکھا ہے کہ سر تو ان کانگریس لیڈروں کو جھکا کر چلنا چاہئے جو فرضی ثبوت کی بنیاد پران کے اوپر الزام لگا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں نے ہائی کورٹ جیسے آئینی اداروں پر  تبصرے کئے اور بعض خاندانوں میں ہوئی المناک اموات میں سیاسی مواقع ڈھونڈے۔

سرکار کے سامنے اپنوں کی چنوتی

    نریند رمودی سرکار اور بی جے پی کو جہاں ایک طرف پارلیمنٹ کے اندر،باہر گھوٹالوں اور منتریوںکے استعفیٰ کے سوال پر الجھنا پڑ رہا ہے وہیں دوسری طرف شانتا کمار کے لیٹر بم نے بھی ان کی نیند اڑادی ہے۔ وہ اپوزیشن کا جواب دے سکتے تھے مگر جب اپنے گھر کے اندر ہی سوال اٹھنے لگیں تو جواب دینا آسان نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ ابھی کہاں تک جائے گا کہنا مشکل ہے۔ شیو راج کے جواب دینے سے شانتا کمار کٹہرے میں ضرور آسکتے ہیں مگرمودی سرکار کی مشکلیں اس سے کم نہیں ہونگی۔ ماضی میں لعل کرشن اڈوانی ،حکومت اور پارٹی کے لئے مشکلیں کھڑی کرتے رہے ہیں اور مستقبل میں کچھ اور بھی بزرگ لیڈران کچھ نئے سوالات کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 505