donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Apni Pasmandagi Ke Liye Musalman Khud Zimmedar Kiyon Nahi


اپنی پسماندگی کے لئے مسلمان خودذمہ دار کیوں نہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ہندوستانی مسلمانوں کو اکثر حکومت سے شکایت رہتی ہے۔ حکومت میں کانگریس ہو، بی جی پی ہو یا کوئی اور پارٹی ، مسلمانوں کو لگتاہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہورہاہے۔ حالانکہ ان شکایتوں کے باجود ان کا انحصار انھیں سیاسی جماعتوں پر رہتا ہے اور اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے وہ کبھی خود قدم آگے نہیں بڑھاتے۔ مسلمانوں کے اندر یہ سوال بھی اکثر اٹھتے رہتے ہیں کہ    کانگریس مسلمانوں کی بڑی دشمن ہے یا بی جے پی؟  اور اس کا جب کانگریس سرکار میں ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کانگریس سب سے بڑی دشمن ہے مگر جب اس کی جگہ بی جے پی حکومت میں ہوتی ہے تو اسے دشمن نمبر ون کہا جاتا ہے۔ مسلمان بی جے پی کو عام طور پر ووٹ نہیں کرتے مگر کانگریس کو ان کا ووٹ جاتا ہے مگر حالات بتاتے ہیں کی کانگریس ان کے لئے دوست نما دشمن ثابت ہوتی رہی ہے۔ اس بات کا جیتاجاگتا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ دس سال کے اس کے یوپی اے دور حکومت میں پولس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ اس کے برعلس جس دوران نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اس بیچ یہاں پولس میں مسلمانوں کے تناسب میں اضافہ ہوا اور وہ اپنی آبادی کے تناسب سے بھی بڑھ گئے۔ادھر کانگریس ایک طرف تو یہ دعوے کرتی رہی کہ سچر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ کیا جارہا ہے اور مسلمان خوشحال ہورہے ہیں ، ان کی ہر سطح پر ترقی ہورہی ہے تو دوسری طرف وہ مسلمانوں کی جڑیں کھودنے کا کام کرتی رہی ہے۔اس نے مسلمانوں کو ہر سطح پر پسماندہ بنانے کی کوشش کی اور انھیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی۔ ایک طرف وہ مہاراشٹر میں انھیں ریزرویشن دینے کا ڈرامہ کر تی رہی تو دوسری طرف اس نے مہاراشٹر کی جیلوں کو مسلمان قیدیوں سے بھر دیا ۔ یونہی یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں جہاں اس نے مسلمانوں کو او بی سی ریزروشن کے اندر ریزرویشن دینے کا ناٹک کیا وہیں دوسری طرف اس نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنے کا کام بھی کیا۔ ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یوپی اے کے دس سالہ دور حکومت میں پولس فورس میں مسلمانون کی تعداد میں کمی آئی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کا مسلمانوں کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے۔

 اعداد کیا کہتے ہیں؟

    ماضی میں جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یو پی اے دور حکومت میں مسلمانوں کی تعداد پولس فورس میں بہت زیادہ کم ہوئی ہے لیکن اس بیچ سرکار بار بار یہ کہتی رہی کہ مسلمانوں کو مساوی مواقع دیئے جا رہے ہیں اور ان کے حالات کو بہتر کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تب کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تو یہاں تک کہا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے مگر سچ تو یہ ہے ان کی سرکار آخری حق بھی دینے کو تیار نہ تھی۔یہ سب باتیں مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کی گئی تھیں جس پر بی جے پی کو سیاست کرنے کا موقع ملا اور اس نے ملک کے اکثریتی طبقے کو یہ بتانے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑا کہ کانگریس مسلمانوں کی چاپلوسی کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء میں پولس فورس میں مسلمانوں کی تعداد 6.2ہوگئی تھی، جب کہ ۲۰۰۱ء میں یہ 8.3فیصد ہوا کرتی تھی۔ یعنی جب کانگریس دس سال تک اقتدار میں رہی اس بیچ مسلمانوں کی تعداد میںزبردست کمی آئی  اور حکومت نے اس کمی کو روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔الٹے وہ مسلمانوں کو یہ تاثر دینے میں لگی رہی کہ ان کی بھلائی کے لئے سرکار بہت کچھ کر رہی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۰۱۳ء میں ملکی سطح پر پولس میں مسلمان 1,08,602تھے جب کہ ۲۰۱۲ء میں 1,08,975تھے۔جو اعدادوشمار دیئے گئے ہیں ان میں 41,089مسلمان پولس والوں کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ گویا باقی ملک کے اعداد اگر دیکھے جائیں تو وہاں کی مقامی مسلم آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال میں مسلمان 25فیصد ہیں مگر پولس میں ان کا تناسب محض 8.5فیصد ہے۔ یونہی آندھرا پردیش کی پولس میں وہ 9فیصد، کیرل پولس میں وہ 8.6فیصد ہیں تو اتر پردیش جہاں مسلمانوں کی آبادی 18فیصد سے زیادہ ہے ،وہاں مسلمانوں کی پولس میں تعداد 5.1فیصد ہے اور بہار پولس مین وہ 4فیصد سے بھی کم ہیں جب کہ یہاں ان کی آبادی 16 فیصد سے زیادہ ہے۔اسی طرح راجستھان اور دہلی پولس میں وہ ایک فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔ ان میں بیشتر ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی۔

کانگریس ،دوست نما دشمن

    کانگریس کے دور حکومت میں پولس فورس کے اندر مسلمانوں کی تعداد کم ہوئی مگر ایسانہیں کہ دوسری سرکاری ملازمتوں میں وہ بڑھے۔ کمی ہر جگہ آئی، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ہوسکتا ہے کانگریس یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ سب ریاستی حکومت کا کام ہے اور مرکز کے اختیار میں نہیں آتا ہے ۔ حالانکہ یہ عذر انتہائی بکواس عذر کہا جائے گا۔ یہ جو کمی آئی ہے وہ ان ریاستوں میں بھی آئی ہے، جہاں کانگریس کی ہی سرکار تھی۔آندھرا پردیش میں وہ ایک مدت تک حکومت میں رہی ہے اور اس کی انھیں حرکتوں کے سبب یہاں سے اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور ایک حصے میں این ڈی اے تو دوسرے میں ٹی آر ایس کی سرکار ہے۔ یہاں سے کانگریس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور جن پارٹیوں نے اس کا دامن تھاما وہ بھی ختم ہوچکی ہیں۔ یونہی راجدھانی دہلی  اور راجستھان میں اسے ہمیشہ مسلمانوں کو ساتھ ملتا رہا ہے مگر اس نے دوست بن کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کام کیا ہے۔ پولس اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کے معاملے میں سب سے پیچھے یہی ریاستیں ہیں جہاں کانگریس کی ہی سرکار تھی اور دلی میں پندرہ سال تک اس نے حکومت کی ہے مگر اب عوام کی ناراضگی کے سبب اس کی وزیر اعلیٰ تک ہار گئیں اور لوک سبھا میں یہاں کی تمام سات کی سات سیٹیں بی جے پی کو مل گئیں۔ جو مسلم ووٹ کانگریس کو جاتا تھا وہ عام آدمی پارٹی کو چلا گیا۔ گزشتہ الیکشن میں جو کانگریس کو بدترین شکست ہوئی اس کے لئے کانگریس کی یہی پالیسیاں ذمہ دار تھیں۔

نام نہاد سیکولرپارٹیوں کا کھیل

    جس رپورٹ نے کانگریس کے دور حکومت کی پو ل کھولی ہے اسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ یوپی اور بہار میں بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور پولس فورس میں ان کی تعداد گھٹی ہے۔ یونہی مغربی بنگال میں بھی ان کی تعداد پولس میں بہت کم ہے۔ یہ تینوں وہ ریاستیں ہیں جہاں کانگریس نے ہی بلکہ دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔ سب سے پہلے یوپی کی بات کریں تو یہاں ایک زمانے سے بی جے پی اور کانگریس دونوں میں سے کوئی پارٹی اقتدار میں نہیں آئی بلکہ بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی باری باری اقتدار میں رہی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے مسلم دوستی کے بڑے بڑے نعرے بلند کئے جاتے ہیں مگر مسلمانوں سے ان کا حق چھیننے میں یہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہاں نہ تو مایاوتی کو مسلمانوں کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی ملائم سنگھ نے مسلمانوں کی خبر لی۔ حالانکہ مسلم ووٹ کے لئے ان دونوں پارٹیوں میں ہوڑ لگی رہتی ہے اور دونوں ہی کی کوشش رہتی ہے کہ کیسے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ ملائم سنگھ کبھی اپنی برادری کے یادووں کو فراموش نہیں کرتے مگر مسلمان انھیں یاد نہیں آتے جو اپنے کندھے پر ان کے اقتدار کی پالکی اٹھاتے ہیں۔

    بہار میں ایک پندرہ سال تک لالو پرساد یادو اقتدار میں تھے اور اس کے بعد اب نتیش کمار کی سرکار ہے۔ ان دونوں نیتائوں کو مسلم ووٹ کے سبب ہی اقتدار ملتا رہا ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کی خبرگیری نہیں کی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ جس ریاست میں ان کا ووٹ حکومت بنواتا ہے وہیںسرکاری ملازمتوں میں ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ گویا مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کے معاملے میں کانگریس ہی نہیں لالو اور نتیش بھی پیچھے نہیں ہیں۔

    مغربی بنگال وہ ریاست ہے جہاں جموں وکشمیر اور آسام کے بعد سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہے مگر یہاں بھی وہ سرکاری نوکریوں اور پولس فورس میں ملازمت کے معاملے میں نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں۔ یہاں تین دہائیوں سے زیادہ کمیونسٹوں کی حکومت رہی اور اسے مسلمانوں کی زبردست حمایت ملتی رہی ہے مگر اس سرکار نے سب سے زیادہ مسلمانوں کا نقصان کیا۔ حالانکہ اب ترنمول کانگریس کی سرکار ہے اور ممتا بنرجی وزیر اعلیٰ ہیں جن سے مسلمانوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور انتظار ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کریں اور جو نا انصافی اب تک ان کے ساتھ ہوتی رہی ہے اس کا خاتمہ کریں۔ وہ کہاں تک ان کی امیدیںپوری کریں گی اس سوال کا جواب مستقبل کے ہاتھ میں ہے۔

گجرات پولس میں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی

    پولس کی سطح پر ایک عجیب و غریب بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ گجرات تنہا ایسی ریاست ہے جہاں مسلمان اپنی آبادی سے کچھ زیادہ پولس میں ہیں۔ حالانکہ ۲۰۰۱ء کے فسادات کے وقت ان کی تعداد یہاں بھی کم تھی مگر تب کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے محسوس کیا کہ اگر پولس میں مسلمان کم رہے تو فسادات میں ان کی جانیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ کانگریس مودی کے منفی پہلووں کو خوب خوب اجاگر کرتی ہے مگر کبھی بھول کر بھی یہ نہیں بتاتی کہ کانگریس کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمان پولس میں کم ہیں اور گجرات میں زیادہ ہیں۔ یہ ایک مثال ہے جس سے کانگریس کے ساتھ ساتھ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، جنتا دل (یو) راشٹریہ جنتا دل اور ترنمول کانگریس کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے جنھوںنے مسلمانوں سے وعدے تو کئے مگر کبھی انھیں پورا نہیں کیا۔


پسماندہ طبقات آگے آئے

    مذکورہ رپورٹ سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس ملک میں او بی سی بھی بڑی تعداد میں ہیں اوروہ بھی اپنی آبادی کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں نہیں ہیں مگر انھیں ریزر ویشن سے فائدہ مل رہا ہے اور وہ دوسرے محکموں کی طرح پولس میں بھی بڑھ رہے ہیں۔ پسماندہ طبقات کے افراد ۲۰۱۰ء میں 13.37فیصد تھے مگر ۲۰۱۳ء میں وہ 14.7فیصد ہوگئے ہیں۔ گویا جہاں ایک طرف پسماندہ طبقات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہیں مسلمانوں کا تناسب گر رہا ہے اور یہ سب ان سیاسی پارٹیوں کی مہربانی سے ہورہا ہے جو مسلمانوں کے ہی ووٹ سے اس ملک میں حکومت کرتی ہیں اور ان میں سب سے پیش پیش کانگریس ہے۔

مسلمان خود بھی ذمہ دار

    ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی اور سرکاری ملامتوں سے دوری کے لئے جہاں حکومتوں کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں وہیں خود مسلمان بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کمپٹیشن کا دور ہے اور آگے بڑھنے کے لئے مسابقت میں آنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت تعلیم کی ہوتی ہے اور مسلمان اس جانب خاطر خواہ دھیان نہیں دیتے۔ مسلم محلوں میں یہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ والدین دن چڑھے تک سوتے ہیں اور بچوں کے اسکول کا ناغہ ہوتا ہے۔ایسے میں ہم اس طبقے کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جو صبح سویرے اٹھ کر مورننگ واک کے لئے جاتا ہے اور اس کے دن کی ابتدا ہم سے چند گھنٹے قبل ہوجاتی ہے۔ جب محنت کرکے مسلمان کھیل، فلم اور بعض دیگر شعبوں میں آگے بڑھ سکتے ہیں تو وہ سرکاری ملازمتوں میں آگے کیوں نہیں آسکتے؟  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 561