donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Taslim Ahmed Rahmani
Title :
   Kis Karwat Baithega Yeh Seyasi Oont


کس کروٹ بیٹھے گا یہ سیاسی اونٹ


از:ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی


مرکز میںنریندر مودی کی قیادت میںاین ڈی اے کی سرکارقائم ہونے کے بعد سے جو حالات پیداہوئے ہیں،اس نے ملک میںفرقہ واریت کو ہوادی ہے اورہندواحساس تفاخرکے اضافے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔وہ بحثیں جو ۷۴۹۱تک تقریباختم ہوچکی تھیں ۴۱۰۲کے بعد پھر سے شروع ہوگئیں۔مثلا’گؤکشی پر پابندی‘’وندے ماترم‘’بھارت ماتاکی جے‘’مسلمانوںکی تعداد ہندوو ¿ں سے بڑھ جانے کا مفروضہ‘’یکساںسول کوڈ وغیرہ کی بحث‘وغیرہ وغیرہ یہ تمام وہ مسائل ہیں جن پر اس ملک میں ۵۰۹۱میں ہندومہاسبھاکی تشکیل کے بعد زبردست بحث ہوتی رہی،کبھی کبھی یہ بحث خونریز شکل بھی اختیار کرتی رہی۔ہندوقوم پرستوںکی انھیں بحثوںنے ملک میںمسلم لیگ کو طاقت دی تھی اوردوقومی نظریے کو پروان چڑھایاتھا،جس کے نتیجے میںملک بالآخر مذہبی بنیادوںپر دوحصوںمیںتقسیم ہوگیا۔مذہبی بنیاد پر پاکستان اسلام کا پیروکار بن کر مملکت خداداد کی حیثیت سے وجود میںآیامگر ہندوستان نے اس دوقومی نظریے کو بظاہر ردکرتے ہوئے سیکولرزم کو اپنالیا۔یہی بات بہت حیرت ناک ہے کہ جب ملک دومذہبی نظریات کے ٹکراو ¿ کے نتیجے میںتقسیم ہوااورایک نے اسلام کو اپنالیاتو دوسرے نے اتنی شدید ہندوتحریک کے باوجود ہندومذہب کو سرکاری طور پر قبول کرتے ہوئے اسے ہندوراشٹرکے طور پر کیوںنہیں قبول کیا۔عام طور پر کہایہ جاتاہے کہ اس وقت کی کانگریس قیادت سماج واد اورسیکولرزم کے نظریات کی حامی تھی اسی لیے ملک کو ہندوراشٹرنہیں بننے دیااورملک میںموجود تمام مذاہب ،نظریات کو ایک ساتھ رہنے پر ترجیح دی گئی۔سننے میں یہ بہت اچھالگتاہے لیکن اگر بغور آزادی کے وقت کے حالات کا تجزیہ کیاجائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ مسلم راشٹرکی حیثیت سے پاکستان تو متحد رہ سکتاتھالیکن ہندوراشٹرکی حیثیت سے اتنابڑاہندوستان قائم کرناناممکن تھا۔اس لیے کہ کشمیر کے مسلمان،پنجاب کے سکھ،شمال مشرق کی عیسائی ریاستیں اورجنوبی ہندوستان کا مختلف ہندوازم اس مجوزہ ہندوراشٹرکو خارج کردیتااورہندوراشٹرکی حیثیت سے محض ہندی بیلٹ کا کچھ علاقہ ہی قائم رہتااورمتحدہ ہندوستان دوحصوںمیں بٹنے کے بجائے متعدد حصوںمیںتقسیم ہوجاتا۔اسی خدشے کے پیش نظر کانگریس کی قیادت نے ہندوراشٹرکے ہم نواو ¿ں کو سمجھابجھاکر یاتو خاموش کردیایااپنے آپ میںضم کرلیا۔خود نئے دستور میںبھی اس بات کا لحاظ رکھاگیاکہ ملک سیکولر ہونے کے باوجود ہندوبرتری کا غمازرہے ۔دستور ساز اسمبلی کی تمام بحثوںمیںان تمام تجاویز کو قبول کرلیاگیاجو ملک کو بتدریج غیر اعلانیہ ہندوراشٹرکی جانب لے جاتی تھیں اوراس کے بعد بتدریج کانگریس کی مختلف قیادتیں اوروزرائے اعظم اس غیر اعلانیہ ہندوراشٹر کے لیے ملک بھر میںذہنی ہم آہنگی قائم کرنے کی راہ ہموار کرتے رہے۔اس کا سب سے بڑاثبوت یہ ہے کہ ہمارے زمانے کی تمام سیکولر سیاسی جماعتیں اسی کانگریس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی ہندوتواکی ہمنواہے جس کی وہ عوامی طور پر مخالفت کرتی ہیں۔

مذکورہ بالاپس منظر میں موجودہ حکومت کی کارکردگی یہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ ملک کو ہندوراشٹرمیںتبدیل کرنے کی فضاکانگریس سازگار کرچکی ہے اس لیے اب بظاہر کانگریس کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی اوربھارتیہ جنتاپارٹی وآرایس ایس جیسی سخت گیر ہندوتووادی طاقتیں ہی اب اس ملک کی زمام اپنے ہاتھ میںرکھیںگی اوراگر براہ راست ایساکرناممکن نہ ہواتو نام نہاد سیکولرجماعتیں جو خود اسی سخت گیر ہندوتوکی ہم نواہیں اورکسی نہ کسی موقع پر اس کی حلیف رہی ہیں،وہ ایک مخلوط سرکار کے ذریعے حکومت پر قابض رہیں گی۔گویادونوںجانب نظریہ ایک ہی ہوگا،سیکولرزم اورسماج واد ایک نعرے سے زیادہ اہم پہلے بھی نہیں تھا،اب بھی اپنامقام کھوچکاہے اورمستقبل قریب میں شاید یہ نعرہ سننابھی بند ہوجائے ۔ملک کے موجود ہیجان انگیز حالات میںجہاںایک طرف مذہبی منافرت روز افزوں ہے ،دوسری طرف مہنگائی بڑھتی جارہی ہے ۔بے روزگاری میںاضافہ ہورہاہے،کرپشن کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔کالادھن واپس آنے کے بجائے بڑھتاہوا اب پنامالیکس تک پہنچ گیاہو۔ملک اقتصادی مندی سے دوچار ہو،کسان اوراس کی کھیتی دم توڑ رہی ہواورمیڈیااپنے چینلوںپر یامذہبی منافرت پروس رہاہویاہیجان انگیز یاشہوت خیز کہانیاںدکھاکراصل مسائل سے صرف نظر کررہاہو،ایسے میںاگر کچھ سیاسی پنڈت یہ کہیں کہ بی جے پی کاگراف بہت تیزی سے گر رہاہے اوراگلے انتخابات میںبی جے پی نہیں جیت سکے گی تو ایک لمحے کے لیے بات فوراسمجھ میںآجاتی ہے،لیکن دوسرے ہی لمحے یہ سوال بھی آخر کھڑاہوجاتاہے کہ اگر بی جے پی کا گراف گررہاہے تو آخر کس پارٹی کا گراف بڑھ رہاہے ؟۔۔کانگریس کی جانب دیکھیںتو اس کی حکومتیںمختلف ریاستوںمیںگرتی ہی چلی جارہی ہیں،خود لوک سبھامیںاس کی تعداد بے حد کم ہے اورراجیہ سبھامیںبھی مستقبل قریب میںیہ تعداد قابل رحم حد تک گر جائے گی۔کانگریس کی مرکزی قیادت کی سیاسی جست وخیز بھی اس قسم کی نہیں لگتی کہ مستقبل میںاس کاگراف بڑھنے کی کوئی امید ہویاکسی ریاست میںاس سے حکومت سازی کی کوئی امید کی جاسکے۔کمیونسٹ پارٹیوںکا حال اس سے بھی زیادہ دگر گوں ہے ۔پہلے بھی وہ کوئی بڑی طاقت میں نہیں تھیںاوراب دونوںکمیونسٹ پارٹیاںاپنی قومی حیثیت بھی گنواچکی ہیں ۔مغربی بنگال میںجہاںایک لمبے عرصے ان کی حکمرانی رہی،اب مستقبل میںکبھی ان کے دوبارہ اقتدار میںآنے کی توقع نہیں رہی۔اس کے بعد جو پارٹیاںبچتی ہیں،وہ تمام کی تمام ریاستی نوعیت کی علاقائی سیاسی جماعتیںہیں،جن کے سیاسی نظریات اپنی ریاست سے زیادہ آگے تک دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔مثلااترپردیش کی سماج وادی پارٹی،بی ایس پی ریاست سے باہر حکومت سازی کے لیے کبھی کوشاں نہیںرہے،اڑیسہ کی بیجوجنتادل کبھی باہر نہیں نکلی،پنجاب کی اکالی پارٹیاںپنجاب میں ہی مگن ہیں،تمل ناڈوکی اماں اورکروناندھی پانڈیچری سے آگے نہیں بڑھتے،تلنگانہ کی پارٹیاںتلنگانہ میںاورآندھراکے چندربابونائیڈواپنے ہی حلقوںمیںبند ہیں۔یہ اوراس قسم کی تمام سیاسی جماعتوںکا مرکزی سطح پر حکومت سازی کا نہ کوئی ارادہ ہے اورنہ کوئی صلاحیت اورطاقت ۔ایسے میںبہار انتخابات کے آغاز سے ہی جنتادل یونائیٹیڈمرکزی سطح پر حکومت سازی کا دم بھرتی رہی ہے۔بہار الیکشن کے موقع پر بھی یہ اعلان کیاجاتارہاکہ قومی سطح پر نریندر مودی کا جواب نتیش کمار ہی ہوسکتے ہیں،بہار کے مسلمانوںنے بھی اسی نعرے سے متا ¿ثر ہوکر بہار کے مہاگٹھ بندھن کو یکمشت ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کردیا۔یہاںیہ سوال پیداہوتاہے کہ کیابہار میںمحدودہوکر رہ گیاہے جنتادل یونائیٹیڈواقعی بہار سے نکل کر قومی سیاست میںکوئی انقلاب بپاکرنے کی صلاحیت رکھتاہے؟

گزشتہ دنوںملک کے ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار سے گفتگوکے دوران جب یہی سوال میںنے اٹھایاکہ ملک میںکس کا گراف بڑھے گاتو ان کا کہناتھاکہ سردست کوئی سیاسی پارٹی اس زمرے میںفٹ دکھائی نہیںدیتی لیکن اس قسم کی بحرانی سیاست میںعین وقت پر نئی سیاسی مساواتیںبن جاتی ہیںجو ملک میںاقتدار کی کروٹ کو بدل دیتی ہیں،اس سلسلے میںانھوںنے جنتاپارٹی کو مثال کے طورپر پیش کیاجس نے ۸۷۹۱میںپہلی بار کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کیاتھااوراس کی دوسری مثال عام آدمی پارٹی کے طور پر پیش کی جس نے اچانک کھڑے ہوکر حیرت انگیز طور پر دہلی کے ریاستی انتخابات میںایک تاریخ رقم کی تھی۔ان کا کہناتھاکہ اگلے انتخابات کے قریب اسی قسم کا کوئی نیاسیاسی گروہ کھڑاہوسکتاہے جو کانگریس اوربی جے پی دونوںکو اقتدار سے دور کردے۔

سنیئر سیاسی تجزیہ نگاروںکا یہ تجزیہ اپنی جگہ درست ہوسکتاہے لیکن یہ بھی ذہن نشیں رہناچاہیے کہ اس قسم کے بروقت سیاسی تجربات کبھی بھی دیر پاثابت نہیںہوئے۔مثلاجنتاپارٹی جس تیزی سے وجود میںآئی اسی تیزی سے محض ۸۲مہینہ کے اندر نہ صرف یہ کہ ان کی حکومت گرگئی بلکہ پارٹی کی بھی دھجیاںبکھرگئیںاوراس وقت مختلف ریاستوںمیںاسی پارٹی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اقتدار میںہیں۔لالوپرساد یادوکی آرجے ڈی اورنتیش کمار کا جنتادل یواسی کا حصہ رہے ہیں اوراگر غور سے دیکھیںتو ملک میںآدھے سے زیادہ حکمراںسیاسی جماعتیںاسی جنتاپارٹی کا ٹوٹاہواحصہ ہیں۔عام آدمی پارٹی کا حال بھی اس سے زیادہ بہترنہیںہے۔اچانک وجود میںآئی یہ سیاسی جماعت دلی سے باہر اپنااثر نہیںجماسکی اوراب خود دلی میںبھی اس کی گرفت اتنی مضبوط نہیںرہی،پارٹی میںایک تقسیم ہوچکی ہے اورمزید تقسیم کا اندیشہ ہر وقت برقرار ہے۔چنانچہ یہ سیاسی تجربے تھوڑی دیرکے لیے بجلی جیسی ایک چمک توپیداکرسکتے ہیںلیکن آسمان سیاست پر جگمگاتے ہوئے چاند اورسورج بن جائیں،اس کے امکانات مخدوش ہیں۔

۰۱اپریل ۶۱۰۲کو شرد یادونے جنتادل یونائٹیڈ کی صدارت ترک کردی ،وہ تین مرتبہ پارٹی کے صدر رہے،ان کی پارٹی کی دستور کے مطابق لگاتاردومرتبہ سے زیادہ اس عہدے پر کوئی فائز نہیں رہ سکتا،ان کی تیسری مدت کے لیے بھی دستور میںترمیم کرنی پڑی تھی ۔پارٹی کے بڑے لیڈران ان کو چوتھی مدت دینے کے لیے ایک بار پھر پارٹی کے دستور میںترمیم کے لیے رضامند تھے لیکن خود شرد یادونے اسے پسند نہیںکیااوربہت سختی کے ساتھ ردکرتے ہوئے نئی قیادت کے لیے راستہ ہموار کردیا۔پارٹی کی قومی مجلس عاملہ میںانھوںنے خود بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کانام پارٹی کی صدارت کے لیے پیش کیااوراتفاق رائے سے اسے قبول کرلیاگیا۔اس میٹنگ کے بعد پارٹی کے قومی ترجمان کے سی تیاگی نے کہاکہ پارٹی کا فوری نشانہ ۷۱۰۲کا اترپردیش انتخاب ہے لیکن پارٹی کا اصل نشانہ ۹۱۰۲کا لوک سبھاانتخاب ہوگا۔اس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ ۹۱۰۲تک نتیش کمار بہار میںوزیراعلیٰ رہتے ہوئے مختلف ریاستوںمیںپارٹی کو مضبوط کرنے اوردوسری ریاستی پارٹیوںکو یاتوپارٹی میںضم کرنے یاان سے اتحاد بنانے کی کوشش کرتے رہیںگے اوربالآخر ۹۱۰۲میںقومی سطح پر ایک سیاسی قوت بن کر ابھریںاورکانگریس وبی جے پی کا مقابلہ کریں۔یہاںدوباتیں واضح رہنی چاہیے۔ایک تو یہ کہ خود بہار میںلالوپرساد یادوکی پارٹی کیا۹۱۰۲تک نتیش کمار کو برداشت کرے گی ؟لالوپرساد یادوپارٹی میںاپنے ہی خاندان کے لوگوںکا قد بڑھانے میںمصروف ہیں،سیکولرزم کی دعویداری ثانوی ہے اورسماج واد کا نظریہ پریوار واد میںبدل چکاہے ۔اگر واقعی وہ پارٹی کو ریاست میںمضبوط کرنے کے لیے سنجیدہ ہوتے تو ریاست کی نائب وزارت اعلیٰ پر اپنے بیٹوںکو بھیجنے کے بجائے عبدالباری صدیقی کو متمکن کرکے وہ نہ صرف ریاست کو بلکہ پورے ملک کو بہت مثبت پیغام دے سکتے تھے لیکن اتنے سنگین حالات میںبھی انھوںنے ایساکوئی اقدام نہ کرکے واضح اشارہ دے دیاہے کہ انھوںنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھاہے اورنہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک میںلالوپرساد جیسے سب سے زیادہ سیکولرسمجھے جانے والے سیاسی لیڈر کو بھی مسلمانوںکا اقتدار پسند نہیں ہے ۔ایسے میںوہ نتیش کو بھی کتنی دیر تک برداشت کریںگے یہ آنے والاوقت بتائے گا۔بہر حال ۷۱۰۲تک بہار میںکوئی سیاسی خطرہ دکھائی نہیںدیتااورشاید نتیش کمار بھی اسی لیے پرامید ہیں۔لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ انھیں شرد یادواورنتیش کمار کی قیادت میںقومی سطح پر جس مہاگٹھ بندھن کی بات چلی تھی اورسب پارٹیوںکو توڑ کر ایک پارٹی میںضم کرنے کی منصوبہ سازی کی جارہی تھی وہ حمل استقرار سے پہلے ہی ساقط ہوگیا۔اس کی دوسری کوشش بہار انتخابات کے بعد آسام میںکی گئی لیکن وہی کانگریس جس نے مہاگٹھ بندھن کے ذریعے بہار میںاپنی مردہ عروق کو گرم لہوفراہم کیااسی کانگریس نے آسام میںاس مہاگٹھ بندھن کا راستہ مسدود کردیااوراب یہی کانگریس اترپردیش میںپھر اسی مہاگٹھ بندھن کو مضبوط کرکے بہار کی طرز پر اپنے آپ کو اترپردیش کے اندر مضبوط کرنے کے فراق میںہے۔خود نتیش کمار یادوبھی اس معاملے میںکانگریس کے ہم خیال ہیں،حالانکہ اترپردیش کی صورت حال یہ ہے کہ یہ مہاگٹھ بندھن جو بہار میںفاتح ثابت ہواتھااترپردیشن میںاجیت سنگھ کے راشٹریہ لوک دل اورایوب کی پیس پارٹی کو جنتادل یو میںضم کرلینے کے باوجود اورکانگریس کے حلیف بن جانے کے بعد بھی ریاست میںووٹ کٹواسے زیادہ حیثیت کی حامل نہیںہوسکتی۔ واضح رہے یہاں بھی یہ گٹھ بندھن اویسی کو بے مہار چھوڑکے رکھے گا۔اور ریاست کی دوبڑی سیاسی جماعتیں بی ایس پی اورسماج وادی پارٹی اس مہاگٹھ بندھن کا حصہ کبھی نہیںبنےںگی۔یہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ نتیش کی قیادت والایہ مہاگٹھ بندھن ۹۱۰۲تک بہت زیادہ برگ وبار لانے کی پوزیشن میںدکھائی نہیںدیتااورملک کی بیشترپارٹیاںاپنی ریاستی مفادات کے مدنظراپنے وجود کو ختم کرنے پر آمادہ نہیںہوںگی ،چاہے وہ جنتادل سیکولر جیسی چھوٹی ہی پارٹی کیوں نہ ہو۔یہاںیہ امر بھی واضح رہناچاہیے کہ نظریاتی طور پر خود نتیش کمار نے آرایس ایس اوربی جے پی کی مخالفت کبھی نہیںکی بلکہ پارٹی کی صدارت کے اپنے انتخاب کے بعد بھی انھوںنے اپنے بیان میںیہ کہاکہ بی جے پی اٹل اوراڈوانی کی پارٹی نہیں رہی ،اس لیے اس سے ان کو اختلاف ہے۔یعنی وہ یہ ظاہر کرتے رہے ہیںکہ ان کا اصل اختلاف ذاتی طور پر نریندر مودی سے ہے ،بی جے پی کے نظریات سے نہیں۔اسی لیے ۷۱سال تک وہ بی جے پی کے حلیف کے طور پر بہار میںحکمراں رہے۔گویااگر آخری مرحلے پر بھارتیہ جنتاپارٹی نریندر مودی کو سامنے سے ہٹاکر راج ناتھ سنگھ جیسے کسی لیڈر کو آگے کردیتی ہے تو نتیش کمار سے بجاطور پر یہ توقع کی جائے گی کہ وہ اس بی جے پی کا ہاتھ ایک بار پھر تھام لے۔یہی وہ اصل صورت حال ہے کہ جو اس ملک کے مستقبل کی سیاست کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک ہے ۔یعنی سیکولرلوگ کرپٹ ہیںاورغیر سیکولرایک دوسرے کے حلیف ۔ایسے میںمسلمانوں،دلتوں،قبائلیوںاورانتہائی غریب عوام کے لیے کوئی انصاف پسند سیکولر سماج وادی سیاسی متبادل قومی سطح پر اچانک آکھڑاہوگا،اس کے امکانات سردست دکھائی نہیںدیتے اورنتیش کمار شاید اسی صورت حال کا سیاسی فائدہ اٹھاناچاہتے ہیں۔

(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )


*****************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 533