donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Izhar Ahmad Gulzar
Title :
   Saneha Karbo Bala


سانحہ کرب و بلا


  ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

  (۱۱ گورونانک پورہ ، فیصل آباد ، پاکستان)

فون: 0092 300 7632419

 

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ، ابتداء ہے اسماعیل ؑ

     قومیں پیدا ہوتی ہیں مٹ جاتی ہیں ، بستیاں آبادہوتی ہیں، اُجڑ جاتی ہیں ، تہذیبیں نکھرتی ہیں پھر دھند لا جاتی ہیں ، شخصیتیں پیدا ہوتی ہیں مر جاتی ہیں ، داستانیں مرتب ہوتی ہیں محو ہو جاتی ہیں۔یہ عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور مسلسل جاری رہے گا لیکن یہ ایک داستان الم ایسی ہے جو تاریخ کے صفحات میں آج بھی اسی طرح روشن اور تابندہ ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے تھی۔ امتداد زمانہ کی گردش اور انقلاب روزگار کی ہزاروں گردشیں اس داستان الم کو مٹا سکیں اور نہ رہتی دُنیا تک مٹا سکیں گی۔

    کیوں؟۔۔۔ اس لیے کہ اس داستان عظیمہ کو لکھنے والی مقدس شخصیت نے اسے اپنے خون جگر سے لکھا اس تحریر کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا، تاریخ عالم کے صفحات اس داستانِ عظیمہ کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں اگر کسی میں حوصلہ ہے تو اس آفتاب کے سامنے اپنا دیا جلا کر تو دکھائے۔ فاطمہ کے لخت جگر نے اپنے نانا کے مقدس دین کے احیاء کے لیے قربانی کا جو بے نظیر معیار قائم کیا ، کوئی اس کی مثال تو ڈھونڈ کر لائے! قتل جادہء حق و صداقت نے کمال صبر و استقامت سے ان آزمائشوں کو طے کیا جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے ابدی پیغام میں متعین کیا۔ اے سنگلاخ زمین! یہ تیری پیٹھ پر کیسا بھیانک کھیل کھیلا گیا اور تو ساکن رہی !تجھ سے زلزلے کیوں نہ پھوٹے؟ تو نے اپنے دامن کو جھٹک کر ان ننگ انسانیت سفاکوں سے پاک کیوں نہ کر دیا؟ کیوں نہ تیرا سینہ شق ہوا کہ تیری پشت کا یہ بوجھ تیرے پیٹ کی گہرائیوں میں ڈوب کر ختم ہو جاتا؟ بادلو! کیا تمہار ے سوتے خشک ہو گئے تھے کہ تم سے کربلا کے پیاسوں کی پیاس کا مداوا نہ ہو سکا؟ تم نے پانی کے طوفان کیوں نہ اُلٹ دیئے کہ بدبخت سپاہ کو بہا لے جاتے؟

    ہواؤ !تمہارے وہ تند و تیز طوفان اور تھپیڑے کہاں گئے جن کی ایک جھلک تم نے جنگ احزاب کے موقع پر دکھائی تھی؟ کیوں نہ اب بھی تم نے اعدائے حق کے خیموں کو تلپٹ کر دیا؟ کیوں نہ ان میں آگ لگا دی ؟ کیوں نہ ان کی آنکھوں کو خاک آلود کر کے بینائی سے محروم کر دیا؟ بتاؤ! افلاک کے نیچے سے اس سے بڑا ظلم بھی کوئی اور ہو سکتا تھا ؟ بتاؤ تم خدائے ذوالجلال کو روزِ محشر کیا جواب دو گے؟

    بحوالہ: ابوانیس صوفی برکت علی لدھیانویؒ

     جگر رسول ﷺ سید شباب اہل جنت حضرت حسینؓ اور آپ کی آل اولاد اور اصحاب کبار کی درد انگیز شہادت کا واقعہ کچھ ایسا نہیں جسے کبھی بھلایا جا سکے، نہ صرف مسلمان ہی بلکہ دوسرے مذاہب والے بھی اپنے دل میں ایک دُکھ اور درد محسوس کرتے ہیں اس سانحہ میں اہل نظر کے لیے بہت سی عبرتیں اور نصائح ہیں۔ دُنیا کی تاریخ خود اپنی ذات میں کوئی مقصد نہیں رکھتی بلکہ ان نتائج و عواقب کی نشان دہی کرتی ہے جو اقوام عالم میں پیش آتے ہیں تاکہ عبرت حاصل ہو اور اصلاح احوال کی سعی ہو۔

    سیدنا و سید اہل الجنتہ حضرت حسین بن علیؓ کا واقعہ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اندوہناک واقعہ ہے بلکہ پوری دُنیا کی تاریخ میں اسے ایک خاص اہمیت ہے اس میں ایک طرف تو ظلم و جور اور سنگدلی، بے حیائی اور محسن کشی کے ایسے دردناک، ہولناک اور عبرت انگیز واقعات ہیں کہ انسانی تاریخ میں اس کا تصور بھی ناممکن ہے اور دوسری طرف آل اطہار رسولﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل قوت کے مقابلہ میں ڈٹ جانا ثابت قدمی ، قربانی اور جان نثاری کے ایسے محیر العقول واقعات ہیں جن کی نظیر تاریخ عالم میںملنی ناممکن ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں مخفی ہیں۔ اس دردناک اور غم ناک واقعہ کا بیان کرنا گویا دریائے خون میں داخل ہونا ہے۔

    لیکن افسوس ہے کہ اسلام کا پہلے سا عظیم الشان دور زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا اور رہتا بھی کس طرح؟ جب کہ آنحضرتﷺ خود اپنی زبان حق ترجمان سے فرما چکے تھے’’میری اُمت میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے ، پھر اس کے بعد والوں کا ، پھر اس کے بعد والوں کا، پھر تمہارے بعد ایک قوم آئے گی جو شہادت دے گی حالانکہ اس سے شہادت طلب نہ کی جائے گی یہ لوگ خائن ہوں گے امانت دار نہیں، یہ نذریں مانیں گے مگر انہیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا عام ہو جائے گا ‘‘(صحیح بخاری) حافظ عمادالدین ابن کثیر نے طبرانی سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں جبری سلطنت کے بعض نشانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تاریخ اسلام میں شروع سے اب تک جو کچھ انقلابات آئے ہیں اور طریق حکومت کے اعتبار سے جو جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں ان سب کا اجمالی خاکہ آنحضرتﷺ کو پہلے ہی دکھلا دیا گیا تھا چنانچہ ارشاد ہے ’’اس حکومت کا آغاز رحمت و نبوت سے ہوا، پھر یہ رحمت اور خلافت ہو گی ، اس کے بعد جبری سلطنت بن جائے گی، مسلمان بادشاہ ریشم اور شراب کو حلال کر لیں گے ، ان کو اس کے مواقع ملیں گے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہو جائیں گے ، اس پیش گوئی میں یہ بات لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرتﷺ نے اسلام کے تین ادوار کو خیر فرمایا ہے یعنی اسلام کا بہترین دور تو ہو گا جس میں آنحضرتﷺ خود جلوہ افروز ہوں گے اس کے بعد کا دور صحابہ ؓ بھی خیر القرون ہو گا مگر عہدنبوت سے کم درجہ پر اسی طرح عہد تابعین بھی خیر ہو گا لیکن اسی میں عہد صحابہ کی سی بھلائی(خیریت) نہ ہو گی۔ باالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ عہد صحابہؓ میں ہی کچھ ایسے واقعات پیش آئیں گے جن کو مسلمانوں کی تاریخی بدنصیبی کا پہلا باب کہاجائے گا اور تب اسلام کی حقیقی روح کا اضملال شروع ہو جائے گا تابعین کے دور میں یہ اضملال بڑھے گا لیکن ان دونوں زمانوں کے اضملال غیر محسوس ہو گا اس لیے بحیثیت مجموعی آئندہ آنے والے زمانوں کی بہ نسبت یہ دور پھر بھی خیر القرون ہو گا۔


     سرور کائنات نے جو پیشن گوئی کی تھی۔ وہ ہو بہو پوری ہو کر رہی اس میں ذرا شبہ نہیں کہ ہر صحابی اپنی انفرادی زندگی میں ایمان و عمل کے اعتبار سے آسمان کا آفتاب و ماہتاب اور فرمانِ نبویﷺ ’’ان میں سے تم جس کسی کا بھی اقتداء کرو گے، ہدایت پاؤ گے ‘‘ کا مصداق تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا وہ عدیم المثال اجتماعی نظام جو عہد نبوت اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے زمانوں میں قائم تھا حضرت عثمان ؓ کے واقعہ شہادت ۳۵ ھ کے بعد اپنی اسی شکل و صورت کے ساتھ قائم نہ رہ سکا خیر کے ساتھ شر لگا ہی ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی متعدد فتنے اُٹھے لیکن ان دونوں بزرگوں نے اپنی غیر معمولی فراست دینی شجاعت اور جرأت سے ان اکا استحصال اس طرح کر دیا کہ ان کوپھر اُبھرنے کا موقع نہ مل سکا۔

    لیکن حضرت عثمانؓ کا واقعہ شہادت اسلام کی تاریخ کا ایک ایسا المناک حادثہ فاجعہ ہے جس نے رونما ہو کر مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں لامرکزیت پیدا کر دی اور ایک ایسا فتنہ عظیم کا دروازہ کھول دیا جس کے نحوستیں مرور ایام کے ساتھ بڑھتی ہی رہیں۔ حضرت عثمانؓ نے جان دیدی مگر فتنہ کے کھڑا ہونے کا اندیشہ سے کسی کو باغیوں کے خلاف تلوار اُٹھانے کی اجازت نہ دی۔

    حضرت عثمانؓ کے اس غیر معمولی ایثار کے باوجود ان کو جو اندیشہ تھا وہ صحیح ثابت ہوا اور اسلام کے اجتماعی نظام کاشیرازہ پراگندہ ہو گیا آپ کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے، آپؓ کی بے نفسی اور بے غرضی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آپ نے شروع میں خلافت کا بار سنبھالنے سے بہت انکار کیا اور فرماتے رہے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں اور نہ مجھ کو اس کی کوئی ضرورت ہے ۔ تم جس کسی کو خلیفہ منتخب کراؤ گے میں بھی اس پر راضی ہو جاؤں گا۔ حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ ان حضرات کی نمائندگی کر رہے تھے حضرت علیؓ کا انکار دیکھ کر جب انہوں نے کہا کہ مدینہ میں آپ سے بڑھ کر خلافت کا کوئی اور دوسرا شخص مستحق نہیں ہے تو آپؓ نے فرمایا’’ ایساکرو میں بہ نسبت امیر ہونے کے وزیر ہونے کی اچھی استعداد رکھتا ہوں ‘‘لیکن جب مدینہ کے اکابر صحابہؓ کا زیادہ اصرار ہوا تو آپ نے جمہور کی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے اس کو منظور فرما لیا۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا اسم مبارک علیؓ کنیت ابو تراب اور لقب حیدر تھا رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کے صاحبزادے تھے خانہ کعبہ میں ۶۰۰ء میں پیدا ہوئے ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ ؓ سے آپ کا عقد کر دیا۔ آپ بڑے طاقتور، بہادر اور تلوار کے دھنی تھے، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں کے اصرار پر ۶۵۶ء کوآپ نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ ایک شخص ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو کوفہ کی مسجد میں تلوار سے زخمی کر دیا جس کی وجہ آپ ؓ شہید ہو گئے۔ آپ کو ۴ سال ۹ ماہ خلافت کرنے کا موقع ملا گو آپ کا دور فتنوں اور سازشوں کا شکار رہا، پھر بھی کابل سیستان سے آگے تک اسلامی فوج بڑھ چکی تھی اور ایک بحری دستہ فوج ۳۸ ھ ہندوستان میں کوکن کے مقام پر قابض ہو چکا تھا۔ آج مسلم اُمہ جس بدحالی اور یورپی اقوام کے زیر عتاب ہے وہ یقینا ہمارے گزشتہ اعمال کا ثمرہ ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ان تمام بدعملیوں کا جائزہ لیں جو ہم نے تاریخ کے عہد ماضی میں کی ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ کسی مسلمان حکومت کا گناہ تنہا اس حکومت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا گناہ ہے اور اپنی ان بد عملیوں کا جائزہ لینے کے بعد بارگاہ ایزدی میںصدق دل سے توبہ کر کے آئندہ کے لیے عہد صمیم کریں کہ ہم پھر ان گناہوں کا ارتکاب نہ کریں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے اس اُمت کا آخر انہیں طریقوں سے اصلاح یاب ہو گا جن سے اس اُمت کے اوّل کی اصلاح ہوئی تھی۔

    اظہار احمد گلزار بارگائہ امام عالیٰ مقام میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

سلام اے فاطمہ کے لعل اے جنت کے شہزادے
اشارے سے تیرے کھُل جاتے ہیں رحمت کے دروازے
سلام اے راکعب دوش رسولؐ اے پسرِ اسد اللہ
شریعت کے محافظ اور دینِ اللہ کے شیدا
سلام اے حسنؑ کے بھائی براور زینب کِبریٰ
کہ جس کی واپسی کا راستہ تکتی رہی صغریٰ
سلام اُس پر پسند آیا جسے کربل کا ویرانہ
دیا ہے خاطر حق جس نے اپنے سر کا نذرانہ
سلام اُس پر کہ جس نے دیں گی خاطر گھر کو لٹوایا
شہیدوں کی صفوں میں جس نے اعلیٰ مرتبہ پایا
سلام اے اپنے خوں سے نخل سُنت سینچنے والے
میانِ حق و باطل حدِ فاصل کھینچنے والے
سلام اظہارؔ کا پہنچے تری درگاہ عالی میں
محبت آلِ احمد ڈال دو اس قلب خالی میں


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 769