donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Maulana Md Usman Faar Qaleet Ke Muntakhib Adariye


مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے


مرتب: سہیل انجم، تبصرہ نگار: فاروق ارگلی


مولانا محمد عثمان فارقلیط ایک ایسے مایہ ناز صحافی، مفکر، ادیب اور ذہن ساز رہنما تھے جن کی مثال آزاد ہندوستان کی ملّی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ انھوں نے پچیس برسوں تک روزنامہ ”الجمعیة“ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے اردو صحافت کی تاریخ میں اپنی علمی عبقریت، فکری صلاحیت، ملی جذبے کی شدت، زبان و بیان کی لطافت و حلاوت اور تحریر کی صلابت کے ایسے روشن نقوش لوح زمانہ پر مرتسم کیے جنھیں کبھی مٹایا اور بھلایا نہیں جا سکے گا۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ان کے عدیم المثال اور لازوال کارنامے کو یاد کرنے کی کبھی زحمت ہی نہیں اٹھائی۔ انھوں نے جس ملتِ یتیم کے لیے اپنے جسم کا ایک ایک قطرہ ¿ خوں بہا دیا اور اپنی ہڈیوں کو مٹی کی مانند گلا دیا اس ملت کے کسی فرد کو بھی انھیں یاد کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اگر مولانا فارقلیط کسی دوسری قوم کے سپوت ہوتے تو ان کی اتنی یادگاریں قائم ہو گئی ہوتیں کہ دنیا رشک کرتی۔ قابل مبارکباد ہیں سینئر صحافی اور محقق ادیب سہیل انجم جنھوں نے مولانا فارقلیط پر پہلے ایک یادگاری مجلہ، اس کے بعد ان کی حیات و خدمات پر ایک بھرپور کتاب اور اب ان کے اداریوں کا انتخاب شائع کر کے ملت اسلامیہ کی جانب سے فرض کفایہ ادا کر دیا ہے۔ یہ ان کا ایک ایسا قابل فخر کارنامہ ہے جس کی داد انھیں دی جانی چاہیے۔


سابقہ کتاب میں سہیل انجم نے مولانا کی شخصیت اور ان کی صحافتی و ملی خدمات پر مشاہیرِ علم و ادب کے مضامین اور مولانا کے کچھ اداریے شامل کیے تھے۔ لیکن زیر تبصرہ کتاب میں صرف پانچ شخصیات کے مضامین ہیں۔ اس کے بعد پوری کتاب مولانا کے اداریوں پر مشتمل ہے۔ پہلی کتاب جب شائع ہوئی تو اس کی علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ بہت سے اخباروں اور رسالوں میں اس پر تبصراتی مضامین شائع کیے گئے۔ راقم الحروف نے بھی اس کتاب کی روشنی میں مولانا محمد عثمان فارقلیط پر ایک تفصیلی مضمون قلمبند کیا تھا۔ جن لوگوں نے الجمعیة اور دوسرے اخباروں میں مولانا کے مضامین اور اداریے پڑھے تھے ان کے لیے وہ کتاب ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ اس کے توسط سے بہت سی پرانی یادوں کے چراغ روشن ہو گئے۔ مداحانِ فارقلیط کا سہیل انجم سے مسلسل یہ تقاضہ تھا کہ وہ ان کے اداریے بھی شائع کریں۔ اس پذیرائی اور قبولیت نے سہیل انجم کے حوصلوں کو پر لگا دیے اور انھوں نے مولانا کے اداریے حاصل اور اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ اس میں ان کو خاصی مشقت کرنی پڑی۔ لیکن کوئی بھی اچھا کام بغیر مشقت کے نہیں ہوتا اور کوئی بھی نقش خونِ جگر کے بغیر لازوال نہیں بنتا۔ لہٰذا انھوں نے دقت نظر ، سخت کوشی اور جگر کاوی سے کام لیتے ہوئے بے شمار اداریے حاصل کر لیے۔ اس کے بعد خونِ جگر جلانے کا ایک اور مرحلہ آیا۔ یعنی انھوں نے مولانا کے اداریوں کو ایسے ہی کتابی شکل نہیں دے دی۔ بلکہ صحافتی، علمی اور تحقیقی فنکاری کا ثبوت دیتے ہوئے ان اداریوں کو موضوعات کے اعتبار سے مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کر دیا۔ اس طرح انھوں نے آٹھ ابواب قائم کیے اور ہر باب کے تحت مولانا کے اداریے شامل کیے۔


یہ ابواب ہیں: مسلمانوں سے خطاب، عالم اسلام، فرقہ وارانہ فسادات، اخبارات کا رول اور رویہ، ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی، اردو کا مسئلہ، سنگھ پریوار اور ہند پاک تعلقات۔ پہلے باب میں 40اداریے، دوسرے باب میں 16، تیسرے میں49، چوتھے میں 10، پانچویں میں 17، چھٹے میں 21، ساتویں میں 7 اور آٹھویں باب میں 8اداریے شامل ہیں۔ اس طرح اس کتاب میں کل 168اداریے شامل ہیں۔ اداریوں کے کچھ عنوانات ملاحظ فرمائیں: ہمارا مستقبل، سوچنے اور سمجھنے کا وقت، مولانا آزاد کی حقیقی یادگار، مسجدوں کا احترام پہلے خود کرو، مسلمان مشتعل نہ ہوں، تعلیم کی طرف آنا ہوگا، مذہب کے نام پر افیون کی تجارت، یہ خواب خرگوش کب تک، وہ تو کرو جو کر سکتے ہو، مسلمان احساس عمل سے بیگانہ نہیں، خوشی کو فکرمندی نہ بناو ¿، عرب ممالک اور اسرائیل، عرب ممالک اور اسرائیلی جاسوس، فساد کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دو، جبلپور ایک شمشان بھومی، کلکتہ کے بعد خدا خیر کرے، میرٹھ کا امن خطرے میں، فسادات میرٹھ کی تحقیقات، مسلم کشی پر ماتم سرائی کب تک، میرٹھ میں پھر گرفتاریوں کا چکر، اندور کا فساد، پولیس کا اقلیت دشمن رویہ، ان آتش کدوں کو ٹھنڈا کرو، فسطائی اخبارات اور مسلمان، اردو زبان کے دشمن، اردو اور اتر پردیش، مردم شماری اور اردو، اردو کتابوں کا فقدان، جن سنگھیوں کی بلبلاہٹ، ہند پاک دوستی، یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لو وغیرہ وغیرہ۔

مولانا فارقلیط کے اداریے اپنی جگہ پر بہت اہمیت رکھتے ہی ہیں لیکن سہیل انجم نے ان کو ابواب کے تحت تقسیم کر کے ان کو اور اہم اور با معنی بنا دیا ہے۔ کتاب کے قاری کو یہ آسانی فراہم ہو گئی ہے کہ وہ جس موضوع کے تحت مولانا کے اداریے پڑھنا چاہے تلاش کر کے پڑھ سکتا ہے۔ اس سلیقے نے کتاب کی اہمیت اور افادیت میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ مولانا فارقلیط نے اداریے اور مضامین نصف صدی قبل لکھے تھے لیکن ان کی دور اندیشی اور سوجھ بوجھ دیکھیے کہ وہ آج بھی اتنے ہی بامعنی ہیں جتنے اس وقت تھے جب یہ لکھے گئے تھے۔

دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔ کتاب میں شامل پہلے اداریے کا عنوان ہے ”ہمارا مستقبل“۔ مولانا لکھتے ہیں: ” خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے۔ اس وقت ہند میں مسلمان کی حالت بہت نازک ہے اس کا تہذیبی سرمایہ روز روشن میں لٹ رہا ہے۔ اس نے آٹھ سو سال میں جو کچھ کمایا تھا وہ چھ ماہ کے اندر ضائع ہو گیا۔ اب اگر مسلمان مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتا ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی بنائے اور اپنے قومی مزاج کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے۔ اب کوئی طاقت بجز قرآن کے مسلمان کوزندہ نہیں رکھ سکتی۔ اب مسلمان کے تحفظ کی گارنٹی صرف اس کا اخلاق ہے۔ یہ اسلامی اخلاق اسے پھر ابھارے گا۔ پھر اٹھا ئے گا اور اخلا قی دنیا میں پھر غالب کرے گا“۔     ( ۶۱ فروری ۸۴ئ)

ایک اور اداریہ ملاحظہ فرمائیں، اس کا عنوان ہے ”مذہب کے نام پر افیون کی تجارت“۔ مولانا لکھتے ہیں : ”ہم نے خونِ جگر پی پی کر مسلمانوں کو بتایا ہے کہ مسلمانوں کو توہمات، خام خیالیاں، خوش فہمیاں بہت کچھ تباہ کر چکی ہیں۔ اب ان کے تباہ ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی ہے۔ لیکن مسلمان خود تباہی کو دعوت دے رہاہے، سانس حلقوم میں پھنس گیا ہے، مگر وہ توہمات سے باز نہیں آتا۔ جو لوگ مذہب کے نام پر افیون کا استعمال کرتے ہیں ان تک ہماری تحریریں نہیں پہنچتیں۔ اس افیون فروشی کا نظارہ کرنا ہو تو ان کے آستانوں پر چلے جائیے جو تعویذوں کے ذریعہ لوگوں کی مشکلات حل کرتے ہیں اور ان پر کامیابی اور کامرانی کے در کھولتے ہیں۔۷۵۸۱ءمیں قلعہ معلّی کے ان خوش خیالوں میں جو فرنگیوں کے گولوں کی آواز پر کہتے رہے کہ خدا کرے ان توپوں میں کیڑے پڑیں اور ان لوگوں میں جو تعویذوں اور قرآنی نقشوں سے اپنا ہر کام نکالنا چاہتے ہیںکیا فرق ہے۔توپوں میں کیڑے ڈالنے والے نامرادی کی موت مر گئے اور پوری ملت کو مار گئے مگر ان کی ذریت آج بھی باقی ہے جو کاغذ کے پرزوں میں اپنی مشکلات کا حل تلاش کرتی اور قدرتی اسباب کو منھ چڑاتی اور محنت سے جی چرا کر اپنی بگڑی بنانا چاہتی ہے۔مسلمان چاہتا ہے کہ اسے کچھ کرنا نہ پڑے وہ صرف نقش و تعویذ کے چکر میں آکر اپنا سب کچھ دے بیٹھے اور اسرائیل نقش و تعویذ کے بغیر ہی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر بیٹھا“۔ (۳ جولائی ۲۷۹۱ئ)

ان اداریوں کو پڑھ کر ایک بات واضح ہوتی ہے کہ تقسیم کے بعد زائد از نصف صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو صورت حال پہلے تھی وہی آج بھی ہے۔ وہی مسلمانوں کی مظلومی، وہی مسلم دشمن سازشیں، وہی مسلمانوں سے تعصب کا رویہ، وہی جانبداری، پولیس کا وہی مسلم مخالف کردار، مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے اسی طرح بند، اسی طرح تسلی اور تھپکی دے کر مسلمانوں کو سلانے کی کوششیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا اس عرصے میں۔ ہاں اگر مسلمان مولانا کے مذکورہ بالا مشورے پر عمل کریں تو ان یقینی طور پر ان کی حالت بدل سکتی ہے۔ ان اداریوں کو پڑھنے سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا فارقلیط کتنے دوراندیش اور مستقبل شناس تھے۔ انھوں نے ان اداریوں کو روشنائی سے نہیں بلکہ خون دل سے لکھا ہے اور سطور اور بین السطور ان کے اخلاص، ان کے ایثار اور ان کی للہیت کے گواہ بن گئے ہیں۔

کتاب میں جو پانچ مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں پہلا اور سب سے اچھا مضمون خود مولانا فارقلیط کے صاحب زادے جناب محمد فاروق کا ہے جس کا عنوان ہے ”ہمارے والد مولانا محمد عثمان فارقلیط“۔ یہ ایک غیر مطبوعہ اور معرکتہ الآرا مضمون ہے جو انھوں نے سہیل انجم کی درخواست پر اس کتاب کے لیے تحریر کیا ہے۔ اس میں انھوں نے پاکستان میں مولانا کی صحافت سے لے کر الجمعیة کی ادارت، گھر کے اندر ان کے معمولات اور اس کے بعد ان کی بیماری اور وفات تک کے واقعات انتہائی دلدوز اور پرسوز انداز میں لکھے ہیں۔ ایک واقعہ انھوں نے لکھا ہے کہ جب عمر کے آخری حصے میں ان کو برین ہیمرج ہوا تو اس وقت وہ کوئی مضمون لکھ رہے تھے۔ ناک سے خون جاری تھا اور مولانا ناک پر رومال رکھ کر اور یہ کہتے ہوئے کہ ٹپک کتنا ٹپکے گا، مضمون لکھتے رہے۔ جب تک مضمون مکمل نہیں ہو گیا انھوں نے نہ قلم رکھا اور نہ ہی ناک سے رومال ہٹایا۔ آج ہے کوئی صحافی جو ملت کے لیے اس قدر جان دینے کو تیار ہو اور برین ہیمرج ہونے پر اسے اسپتال جانے کی نہیں بلکہ مضمون مکمل کرنے کی تڑپ ہو۔ یہ مضمون اس کتاب کی جان ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوا کہ اگر فاروق صاحب بھی صحافت کے پیشے میں ہوتے تو وہ بھی اعلی پائے کے صحافی ہوتے اور ان کی تحریروں پر بھی قارئین سر دھنتے۔ ان کے علاوہ مولانا امداد صابری، مالک رام، مولانا غفران احمد اور راقم الحروف کے مضامین شامل کتاب ہیں۔

کتاب کا ٹائٹل بے حد خوبصورت ہے۔ سہیل انجم نے جانے کہاں سے مولانا کے وقتِ آخر کی ایک تصویر حاصل کر لی جسے آرٹسٹ نے ایک دستاویز بنا کر اس پر امپوز کر دیا ہے۔ چکنے کاغذ پر چھپائی کی وجہ سے کتاب کی خوبصورتی اور بڑھ گئی ہے۔ جہاں سہیل انجم اس کتاب کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں وہیں اپنے والد پر مضمون لکھنے کے لیے جناب محمد فاروق اور کتاب کو خوبصورت چھاپنے کے لیے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو ¿س بھی مبارکباد کا مستحق ہے۔ یہ کتاب ہر اردو جاننے والے اور ہر مسلمان کے گھر میں بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ ’گاہے گاہے بازخواں‘ کے تحت ان اداریوں کا مطالعہ کر کے اپنے جذب و شوق کو زندہ رکھا جا سکے۔ اگر کوئی صاحب ذوق، صاحب ثروت اور اپنے دل میں ملت کا درد رکھنے والا اہل خیر اس کتاب کی بڑی تعداد میں اشاعت کر کے اسے تقسیم کروا دے تو یہ ملت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ کاش کوئی ایسا پیدا ہو جائے۔ اسے سہیل انجم 9818195929یا پھر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس 011-23216162--23214465سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 308صفحات کی اس کتاب کی قیمت 350روپے ہے۔


ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 499