donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Seraj Ahmad Ansari
Title :
   Nalaye Shabgeer : Tezi Se Badalti Huyi Tahzeeb Ka Ik Naya Warq


 ’نالۂ شب گیر‘:تیزی سے بدلتی ہوئی تہذیب کا اک نیا ورق

 

سراج احمد انصاری 


مشرف عالم ذوقی کا تازہ ترین ناول ’’نالئہ شب گیر ‘‘ایک تانیثی ناول ہے ۔اس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی، استحصال ،ایک لڑکی کا اپنی شرطوں پر زندگی گزارنا اور تبدیل ہوتی تہذیب کو کہانی کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے ۔اس  میںواقعات دلچسپ، پلاٹ با ترتیب اور مربوط ،کردار زندہ اور مثالی ، متوسط طبقہ اور تعلیم یافتہ ماحول ، موزوںمکالمہ اور غم و نشاط دونوں طرح کی جذبات نگاری موجود ہے ۔یہ ہر اس لڑکی سے منسوب ہے جو باغی ہے اور اپنی شرطوں پر زندہ رہنا چاہتی ہے ۔ مشرف عالم ذوقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں ہر بار نئے موضوعات کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں— نئی زندگی ان کے لیے ایک چیلنج ہے— پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی اور لے سانس بھی آہستہ میں وہ مسلسل نئی تہذیب اور نئی دنیا سے ہمارا تعارف کراتے رہتے ہیں— نالۂ شب گیر کی دنیا بھی ایک ایسی ہی دنیا ہے، جس سے ہم سب واقف ہیں لیکن یہ جرأت صرف مشرف عالم ذوقی کے قلم میں ہے کہ وہ بیباکی کے ساتھ ان واقعات و حادثات کو تحریر میں لے آتے ہیں، جن کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی خوف کا احساس ہوتا ہے— قرۃ العین حیدر کے انتقال کے بعد اردو ناول نگاری میں جو خلا پیدا ہوگیا تھا، مشرف عالم ذوقی کی تحریروں نے اس خلاء کو پر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اور اسی لیے آتش رفتہ کا سراغ تک وہ ہر بار نئے اور جدید موضوعات کو پیش کر کے ہمیں حیران کر دیتے ہیں۔

 ناول زندگی کے تجربات پیش کرنے کے ساتھ سماج کو آئینہ دکھاتا ہے ۔ناول نگار کے تجربات و مشاہدات ہی ناول کا اصل مواد ہوتا ہے ۔مصنف جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے ناول کے قالب میں ڈھال دیتا ہے ۔اس کے مطالعات و مشاہدات جتنا عمیق ہوگا ، ناول کی معنویت میں بھی اسی قدر گہرائی و گیرائی ہوگی ۔انفارمیشن ٹکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک گلوب کی مانندبنا دیا ہے ۔ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا کا مشاہدہ کرنا آسان ہو گیا ہے ۔ایک جگہ کا ادب و ثقافت دوسرے ممالک کے ادب و ثقافت پر بڑی آسانی سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔جن سے اردو ادب بھی متاثر ہو رہا ہے ۔یہاں بھی نئے نئے موضوعات شامل ہو رہے ہیں۔ جن کے چند گوشوں کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول’’ نالئہ شب گیر‘‘ میں پیش کیا ہے ۔


ٍ    چوں کہ ناول زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزلیتا ہے ۔اس لیے ذوقی نے اس ناول میں مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ناول کا اہم گوشہ لڑکیوں کے استحصال سے تعلق رکھتا ہے۔ایک مہذب خاندان ،جہاں لوگ نمازی ، معاشرے میں عزت ، گھر میں پردہ اور پرہیزگاری کی شہرت ہے۔وہاں لڑکیوں کی تعلیم اور گھر سے باہر قدم نکالنے پر پابندی ہوتی ہے ۔خاندان والوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ گھر کی عزت نیلام اور بزرگوں کی ناک نہ کٹ جائے ۔ لیکن گھر اور پردے کے اندر کس طرح ان کا استحصال ہوتاہے اس کو باہر کی دنیا نہیں جانتی۔ اور کبھی علم ہوتے ہوئے بھی لوگ ایسی باتوں کو مخفی رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ایک حساس مصنف ، جس کی نظر نہ صرف پردے کے باہر جاتی ہے بلکہ اندر کی چیزوں کا بھی مشاہدہ کر لیتا ہے ۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’جوناگڑھ کا ایک بڑا سا حویلی نما مکان… ایک ابو تھے۔ انتہائی سخت، نمازی، پرہیز گار۔ غصہ آتا تھا تو صرف اماں پر۔ اور اماں پر آئے غصے کے لئے انہیں کسی وجہ کی ضرورت نہیں تھی۔ گھر میں پردے کا رواج تھا۔ باہر جانے پر پابندی تھی۔ لیکن رشتے داروں کی فوج تھی، آئے دن جن کا حملہ ہوتا رہتا تھا… اب تو شکلیں بھی بھولنے لگی ہوں۔ اجو ماموں، گبرو دادا، چینو چاچا… سبحان بھائی، تختے والے عمران چاچا… سفید داڑھی والے ابو چاچا… زیادہ تر داڑھیوں والے بلکہ خوفناک داڑھیوں والے بزرگ… یہ حویلی ہماری تھی تو ان کی بھی تھی… میری عمر ہی کیا تھی۔ مگر میں جیسے مرغی کے دربے میں ہاتھ بڑھا کر کسی مرغی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیتی، ایسے ہی یہ لوگ پیار کے بہانے مجھے بھی دبوچ لیتے۔ کیوں دبوچتے، یہ بات میری سمجھ میں پہلے نہیں آئی تھی۔


پھرمرغیوں کی کڑ کڑاہٹ کے ساتھ ننھی معصوم آوازیں لنگیوں اور پاجاموں کیسرسراہٹ میں کھو جاتیں۔

ماموں چھوڑونا… جانے دونا…
ابو چاچا… کیا کرتے ہو… جانے دو … نا…
گبرو دادا… میں اماں سے کہہ دوں گی… تم بہت گندے ہو…
چھوڑونا…
دکھ رہا ہے…
جانے دو…
یہ بچوں سے پیار کے کھیل تھے جو ابو اور اماں کے سامنے بھی کیے جاتے تو بچوں کا لاڈ اور پیار نظر آتا۔‘‘

یہ وہ موضوع ہے، جس کو اس انداز سے آج تک کبھی پیش نہیں کیا گیا— ذوقی انسان اور انسانی فطرت سے وابستہ سائیکی کی ایک ایک پرتیں بے نقاب کرتے ہیں— ذوقی عورتوں کی آزادی کے قائل ہیں— اور اس آزادی کے لیے وہ صدیوں سے چلے آرہے مردانہ سماج کو معاف نہیں کرتے، جس نے عورتوں کو غلام اور محکوم بنا رکھا تھا— ناہید نئی عورت کی علامت بن کر سامنے آتی ہے اور مردانہ سماج سے اس طرح مقابلہ کرتی ہے کہ اس کا ہر عمل حیرت میں ڈال دیتا ہے—


ناول کی ابتدا صوفیا مشتاق احمد سے ہوتی ہے لیکن اس سے قبل مصنف کچھ کراس لائنیں کھینچتا ہے اور وقت کے فلسفے کو پیش کرتا ہے ۔اس کے مطابق ہر چیز، ہر لمحہ تغیر پزیر ہے۔ نگاہوں نے ابھی جن اشیاء کو دیکھنے کی کوشش کی ہیںیہ ممکن ہے کہ چند لمحے بعد ان کی شکلیں تبدیل ہو جائیں۔با الفاظ دیگرکسی صحرامیں مکان چھوڑ کر گئے ہوں اورواپس لوٹیں تو وہاں ایک پورا شہر آباد ہو۔ اقتباس:

’’لکھتے ہوئے احساس ہوا، یہاں ہر لمحہ ایک نئی دنیا بن جاتی ہے اور اوپر جو کچھ لکھا، وہ سب ماضی کا حصہ، بیکاریا واہیات ثابت ہوچکا ہوتا ہے۔ میری اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ ابھی ایک زمین کے، ایک خالی حصہ کو کراس کر تے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو یہاں ایک نیاشہر آباد رہتا ہے۔ ‘‘( ایضاً، ص۔ ۲۳)

جس فلسفے کو مصنف نے پیش کیا ہے اسے فطری طور پر ناول میںبرتنے کی کوشش کی ہے ۔ ناول میں ایک کردار مصنف کا بھی ہے جو پورے ناول میں موجود ہوتا ہے ۔

ناول کا قصہ صوفیا مشتاق سے شروع ہوتا ہے۔ وہ دیواروںپر آویزاں بڑے بڑے کیڑوں کا ذکر کرتی ہے ۔ایک ڈرا کیولا ہے جو اس کے کمرے میں آتا ہے اور اس کی گردن سے خون چوستا ہے ۔صوفیا، والدین کے انتقال کے بعد اپنی بہن اور بہنوئی کے پاس رہتی ہے۔یہاں بھی وہ محفوظ نہیں رہ پاتی، اپنے بہنوئی کی بد نظری کا شکار ہو جاتی ہے۔جب اس کی گفتگو مصنف سے ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ’ انسان سے بڑا جانورکون ہے صاحب۔در اصل انسانوں کی جنسی بھوک اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کی شکل جانور اور کیڑوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے  ۔

صوفیا مشتاق احمد کے ذریعہ معاشرے کی ایک بڑی خرابی کو پیش کیا گیا ہے جو جہیز کی شکل میںہے ۔صوفیہ مشتاق احمد پڑھی لکھی ایک خوبصورت لڑکی ہے ۔ لیکن اس کی شادی نہیں ہو پاتی کیوں کہ اس کے بے روزگار بھائی کے پاس لڑکے والے کو دینے کے لیے پیسا نہیں ہوتا ہے۔آخر کار اس کے گھر والے اس کی شادی کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیںاور وہ گھر والوں پر بوجھ بننے کے ڈر سے کہیں چلی جاتی ہے ۔اس طرح کا نقص ہمارے سماج میں ہے جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ رہا ہے ۔صوفیا مشتاق، ناہید ناز، کمال یوسف اور مصنف ناول کے اہم کردا ر ہیں اور ان کے اردگرد اس غیر معمولی ناول کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل دہلی میں ایک زنا کا واقعہ سامنے آیا تھا جس پر پوری ہندوستانی عوام نے ایک ساتھ لبیک کہا تھا۔جامعات میں طلبہ و طالبات کے ذریعہ احتجاج عمل میں آیا تھا ۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ رام لیلا میدان میں اکھٹا ہو کر ظلم و جبر کے خلاف نعرے بلند کیے تھے ۔پردے میں رہنے والی عورتیں گلیوں اور سڑکوں پر آ گئی تھیں ۔اسی کڑی میں ناہید اور کمال نینی تال سے احتجاج کے لیے دہلی آئے تھے ۔احتجاج میں کئی دن بیت چکے تھے ۔ کمال کی رائے تھی کہ اب انھیں گھر واپس چلے جانا چاہیے لیکن ناہید اس طرح احتجاج میں کھو گئی تھی کہ اسے اپنے خود کے بچے کی طبیعت کا بھی خیال نہیں رہا ۔وہ اپنے احتجاج سے مظلومہ کو انصاف دلا کر واپس جانا چاہتی تھی ۔اس کی نظر میں تمام مرد ظالم ہوتے ہیںاور عورت مظلوم طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ چاہے وہ مرد اس کا باپ بھائی یا شوہر ہی کیوں نہ ہو ۔اقتباس:

’’کئی روز ہوگئے ۔ ہماری وجہ سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،
’ایک پوری نسل بیماری ہوچکی ہے۔‘ ناہید نے تیور سے کہا۔
’لیکن یہ ہمارا بچہ ہے۔‘
’وہ بھی کسی کی بچی تھی۔‘
’ میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘

’تم نے یہی کہا۔ تم مردوں میں ہمارے معاملے میں ذرا بھی صبر نہیں—وہ غصہ میں تھی—
’پہلی بار ایک بڑی آواز ہماری حمایت میں اٹھی ہے توتم اپنے قدم پیچھے کھینچ رہے ہو۔‘‘ (ایضاً ، ص۔۹۰)

آہستہ آہستہ ناہید کا غصہ بڑھتا چلا جاتا ہے ۔اس کے دل میں مردوںکی خاطر ایک آگ سی پیدا ہو جاتی ہے ۔وہ اپنی شرطوں پر جینے لگتی ہے۔ جو کچھ اسے اچھا لگتا ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتی ہے ۔وقتاً فوقتاً وہ اپنے شوہر سے عورتوں کی حرکات و سکنات اختیار کرنے کی ضد کرتی ہے ۔وہ اسے اپنے شوہر کی شکل میں قبول نہیں کرنا چاہتی ۔ وہ کہتی ہے ، اقتباس:

’’وہ شوہر نہیں ہے۔ خدا کے لیے انہیں شوہر نہ کہیے… وہ میری بیوی ہیں… ‘ ناہید نے کھلکھلا کرجواب دیا۔اور اب میری حراست میںہیں۔‘‘  (ایضاً، ص۔۸۲)

دوسرے جانب کمال یوسف کو محبت کے جذبے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ناہید کی حرکتوں کو وہ برداشت کرتا ہے۔ ناول نگار یہ بتانے کی کوشش میں ہے کہ ہر مرد عورت کو اذیت نہیں دیتا ۔ لیکن کچھ لوگ اسے صرف ایک نظر سے دیکھنا پسند کرتے ہیںجو ہمارے معاشرے کے لیے درست نہیں ہے ۔

 ناہید ناز اس عورت کی علامت ہے جو  پوری دنیا کو بدل دینا چاہتی ہے ۔ وہ عورتوں کو مردوں کے ظلم و زیادتی سے آزاد کر دینا چاہتی ہے ۔جس جگہ بھی عورتوں کے تعلق سے غلط باتیں تحریر ہیں اس کے معنی و مطالب کو مردوں سے منسلک کر دینا چاہتی ہے ۔وہ نہیں چاہتی کی کسی بھی عورت کا نام سن کر کسی مرد کے ذہن میں گندہ خیال ابھرے ۔ جب کمال یوسف اسے ایک ڈکشنری کا پروجیکٹ دیتا ہے تو ایسے تمام الفاط کے معنی و مطالب تبدیل کر دیتی ہے جن سے عورتوں کی عزت پرحرف آتا ہے۔  اقتباس:

’’جیسے آوارہ… اس نے آوارہ کے آگے لکھا… بدچلن مرد۔ مردوں کے     
چال چلن عام طور پر خراب ہوتے ہیں۔
فاحشہ… بدکار مرد…
حرام کار… بدکار مرد…
حرامی… بد ذات مرد…
مطعون… بدنام زمانہ مرد…
طوائف… ناچنے گانے والا مرد…‘‘(ایضاً، ص۔۳۰۹)

اس طرح کی تبدیلی ہمارے سماج میں رونما ہو رہی ہے۔ لڑکیاں تعلیم کی طرف رجوع ہو رہی ہیں ۔ وہ اب کسی قید و بند کی زندگی نہیں گزارنا چاہتیں — والدین کے وصولوں پر چلنے کے بجائے وہ اپنا راستہ خود بنانا چاہتی ہیں ۔ انھوں نے محبت اور ظلم میں فرق کرنا سیکھ لیا ہے ۔اور یہ معاشرے کے لیے ایک خوش آئند بات ہے ۔آج کے والدین کو بھی چاہیے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی قسم کی تفریق نہ کریں بلکہ دونوں کو برابری کا حق دینے کو کوشش کریں ۔اگر لڑکا ڈاکٹر بن سکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں؟

 ذوقی نے دوایسے نسوانی کردار کو پیش کیا ہے جو ایک محبت اور دوسری نفرت کی علامت ہے ۔ایک بے پناہ محبت کرتی ہے اور دوسری مرد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ایک اس کی جدائی میں پاگل ہو جاتی ہے اور دوسری جدائی کے نام پر افسوس تک نہیں کرتی ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔تمام تر تحریک نسواں کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیاں ہیں جو مردوں سے محبت کرتی ہیں۔ان پہلوؤں کے پیش نظر یہ بات بڑے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ ناول نگار نے زندگی کی تمام تر حقیقتوں سے روبرو کر نے کی کوشش کی ہے ۔    

اس گلوبل گاؤں میں ایک طرح کی اورتبدیلی آ رہی ہے جس میںچند لوگوں کو چھوڑ دیں تو لوگ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی وغیرہ سے زیادہ انسان بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ناول میں ایک اہم کردار ناگا رجن اور اس کی بیوی کا ہے جو ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایک مسلم لڑکی کو بڑی محبت کے ساتھ اپنی بیٹی بنا کر پناہ دیتے ہیں ۔ ایک مظلوم لڑکی کی حفاظت کے لیے ہندو یا مسلم ہونے کے بجائے ایک انسان ہونا کافی ہے ۔جب انھیں یہ خبر ہوتی ہے کہ نوآمد لڑکی مسلم ہے تو اسے گھر سے بے دخل کرنے کے بجائے اس سے قرآن کی آئتیں سنتے ہیں ۔بدلتی تہذیب میں لوگوں کے نظریات تبدیل ہو رہے ہیں ۔ نئی دنیا دقیا نوسی باتوں میں یقین رکھنا پسند نہیں کرتی ۔اب کوئی سیاسی لیڈر آسانی سے مذہب کے نام پر لوگوں میںنااتفاقی اور بغاوت پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔  


متذکرہ بالا دلائل کی پیش نظر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مشرف عالم ذوقی کا ناول’ نالئہ شب گیر‘ ایک بہترین معاشرتی اور تہذیبی ناول ہے ۔جس طرح ہمارے معاشرے اور تہذیب وثقافت میں توازن باقی ہے اسی طرح ناول میں بھی اعتدال قایم رکھا گیا ہے ۔ ’لے سانس بھی آہستہ ‘ کی طرح یہ بھی ایک نیا اوراہم موضوع ہے جس سے اردو ادب کوذوقی نے متعارف کرایا ہے۔


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 531