donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Muzaffar Hanfi
Title :
   Kuchh Ahmad Ashfaq Ki Dastaras Ke Bare Me


کچھ احمد اشفاق کی ـ:دسترس؛ کے بارے میں


(پروفیسر مظفر حنفی)

                
ادبی مراکز سے ہٹ کر دور افتادہ مقامات سے تعلق رکھنے والے نغز گو اپنی کھنک دار آواز اور لہجے کی انفرادیت کا احساس دلانے میں کامیاب ہیں اور ان میں وہ شاعر بھی شامل ہیں جو ہند و پاک سے دور سات سمندر پار امریکا،کناڈا،انگلینڈ اور مختلف یوروپی ممالک میں جا بسے ہیں۔خلیجی ملکوں میں مقیم شعراء بھی اس کار خیر میں پیش پیش ہیں اور ماشاء اللہ ان کے مجموعہ ہائے کلام بھی خاصی بڑی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، انجمن محبان اردو ہند قطر سے متعلق چھ سات شاعروں کو تو میں جانتا ہوں جن کی شاعری میں وہ خوبیاں موجود ہیں جن کے بغیر شعر،شعر نہیں رہتا۔احمد اشفاق اس ادب خیز انجمن کے معاون سکریٹری ہیں اور اپنا مجموعہ کلام ؛ دسترس؛ شائع کرنے جا رہے ہیں جسکی اشاعت کا جواز انکے مندرجہ ذیل اشعار ہیں۔

اس عہد خزاں میں کسی امید کی مانند
پتھر سے نکل آوئں مگر ابر تو برسے
اسکی خاموشی مری راہ میں آ بیٹھی ہے
میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی
بھنور کے درمیاں کشتی ہے طوفاں ہے سمندر میں
کہاں تک دیکھئے مٹی کی یہ پتوار چلتی ہے
انا منھ آنسوئوں سے دھو رہی ہے
ضرورت سر بہ سجدہ ہو رہی ہے
ترک تعلقات کی تمہید ہو گئی
کی اس نے رسم و راہ میں کچھ اتنی احتیاط
میری کم گوئی پہ جو طنز کیا کرتے ہیں
میری کم گوئی کے اسباب سے نا واقف ہیں
مری خوش فہمیو! تصویر سے باہر نہیں آنا
ابھی باقی ہے آئینہ،ابھی آئینہ گر باقی

ان شعروں کو نمبروار دیکھتے ہیں۔۔۔۔

۱۔ پتھر سے پھول نہیں اگتے،عہد خزاں میں تو قطعی نہیں لیکن امید کے کرشمے عجیب ہیں، اشفاق اسی امید کے سہارے ناممکن کو ممکن بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ بارش ہو،

(برسات کو تو ہمارے یہاں موسم بہار کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔اب اسے حسن تضاد نہیں تو اور کیا نام دیں!)

۲۔۔  شاعر پردیس جا رہا ہے محبوبہ (ماں،بہن،دوست) نے جانے سے منع بھی نہیں کیا اور اجازت بھی نہیں دی،اب یہی خاموشی راستے میں آ کر بیٹھ گئی ہے ظاہر ہے راستہ رک گیا ہے اور شاعر پر واضح ہو گیا ہے ک خاموشی دراصل ممانعت ہے سفر ممکن نہیں (حسن تعلیل کی ایک صورت)
۳۔۔  طوفانی سمندر میں عین گرداب کے درمیان کشتی ڈال کر شاعر نے مٹی کی پتوار تھام رکھی ہے جو خستہ بھی ہے اور بھاری بھی۔ندرت فکر کی داد دیجئے۔ فطرت کے عناصر اربعہ شعر میں یکجا ہو گئے ہیں۔ ہوا (طوفان) پانی(گرداب)مٹی(پتوار) رہ گئی آگ سو وہ شاعر کے انکہے حوصلے میں پوشیدہ ہے۔

۴۔۔انا پسند مشکلوں کے سامنے اور بھی سر بلند ہو جاتے ہیں، ضرورت شدید ہے سر کو سجدے میں جھکانے پر آمادہ کرنا چاہتی ہے لیکن انا صرف آبدیدہ ہو کر رہ جاتی ہے۔شعر کی دوسری پرت کریدئے تو اس سے بالکل مختلف مفہوم بر آمد ہوتا ہے۔ایہام داد طلب ہے

۵۔۔۔مجھے اپنا مطلع یاد آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاہے  بگا ہے میری طرف دیکھتے رہو
                                 کچھ اور لوگ بھی ہیں اگر بھانپ جائیں تو
احمد اشفاق کا شعر اسکے آگے کی روداد بیان کرتا ہے۔محبوب نے دنیا کے خوف سے رسم و راہ میں کچھ اتنی زیادہ احتیاط برتی کہ تعلقات میں دراڑ پڑ گئی اور  رشتہ منقطع ہونے کی نوبت آگئی عاشق و معشوق کی نفسیات کا خوبصورت مرقع)

۶۔۔۔  ہندی کی ایک چوپائی کچھ اس طرح ہے؛ پھٹے نہ جا کے پائوں بو ائی
                                          وہ کیا جانے پیر پرائی

اب جنکو ان حالات سے سابقہ ہی نہیں پڑا ہو جو شاعر پر گذرے ہیں وہ تو اس کی کم گوئی پر طنز کریں گے ہی، اس کم سخنی اور  قوت برداشت کی داد وہی لوگ دے سکتے ہیں جنہیں ان وجوہ سے واقفیت ہے جنہوں نے شاعر کے منھ پر تالا لگا دیا ہے۔خاصا پہلو دار شعر ہے۔

۷۔۔ اس شعر کو بھی ندرت خیال اور طرز ادا کی تازگی کے تناظر میں محسوس کرنے کی ضرورت ہے، ہر انسان اپنے بارے میں خوش فہمیوں کا شکا ر ہوتا ہے ،شاعر اس بشری کمزوری سے بالا تر نہیں اور یاد رکھناچاہتا ہے کہ ابھی آئینے اور آئینہ گر دونوں موجود ہیں جو خوش فہمیوں میں مبتلا  انسانوں کو حقیقت کا مکروہ چہرہ دکھانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اس لئے خوش فہموں کو اپنی حد میں رہنا چاہئے۔

چلتے چلتے اشفاق کا ایک اور شعر بھی سن لیں۔
لوگ چہرہ چھپائے پھرتے ہیں
آئینہ جانے کس کے ہاتھ میں ہے
آگے بڑھنے سے پہلے راقم الحروف کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمالیں۔
 ادب آئینہ ہے اور ایسا عجب آئینہ
  جس میں سیرت بھی نظر آتی ہے صورت ہی نہیں

ان دونوں شعروں کو اشفاق کے شعر نمبر ۷ کے ساتھ پڑھیں تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔ شعر نمبر ۷ خوش  فہموں کو آئینے اور اور آئینہ گر کی نظروں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے تو آخری شعر میں بقول مظفر اس شخص کی سیرت کا عکس بھی نظر آتا ہے جس نے آئینہ محض لوگوں کے نقائص کو اجاگر کرنے کے لئے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔شعر کی دوسری پرتیں بھی ہیں۔

اشفاق کے کلام میں زبان و بیان کے تسامحات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، انکے مجموعہ کلام ؛ دسترس: کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

          ۲۵  اگست ۲۰۱۴ء

      ************************************

                 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 416