donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Wasiullah Husaini
Title :
   Shakil Badayuni : Aik Rumani Shayar


یوم پیدائش ، ۲۰؍اپریل


شکیلؔ بدایونی :ایک رومانی شاعر


 محمد وصی اللہ حسینی


جب ہم ان شعراء پر نظر ڈالتے ہیں جنہوںنے فلمی دنیا سے وابستہ رہتے ہوئے ادبی وشعری تقاضوں کی پاسداری کی توان میں شکیل بدایونی کا مقام ممتاز اور منفرد نظر آتاہے ۔شکیل نے فلم انڈسٹری میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور ادبی حلقوں میں بھی اپنی نمایاں شناخت قائم کی ۔ڈاکٹر شبنم حمید کے الفاظ میں ’شکیل بدایونی جنہیں فلمی صنم کدے میں بند کرکے ایک تراشیدہ بت کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ،وہ ادبی شاعری کے کلاسیکی حرم کے پاسدار بھی ہیں‘‘ ۔لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ فلمی دنیاسے وابستگی نے جتنا ان کی شخصیت کو مقبول بنایااتنا ہی ادبی حیثیت کو نقصان بھی پہنچایا کیونکہ ان پر فلمی نغمہ نگار کاٹھپہ لگنے کی وجہ سے ان کے ادبی مقام کامحاکمہ نہیں کیاگیا۔

اگرچہ تلاش معاش شکیل کو فلمی دنیا میں لے گئی لیکن بالی ووڈ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے  وہ اپنے اصل راستے سے کبھی نہیں بھٹکے ۔دنیاوی ضرورتوں کے تحت فلمی نغمے ضرور لکھتے رہے لیکن اردوشاعری کے تقاضوں کو کبھی نظرانداز نہیں کیا ۔’صنم وحرم‘میں وہ خود لکھتے ہیں
’’ہر چند کہ فلمی دنیا میں شامل ہونے اور ادبی ماحول سے دور رہنے کے بعد ایک فطری شاعری کا ذوق لطیف مجروح ہونا چاہئے پھر بھی میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے حتی الامکان علمی فراست پر فلمی حماقت کو مسلط نہ ہونے دیا ۔‘‘ایک انٹرویومیں انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر کہا ’’فلمی ماحول نے میری شاعری پر یہ اثر ڈالا کہ میں ذاتی طور پر تو شاعر تھا ہی لیکن پیشے کے لحاظ سے بھجی شاعر ہوگیا اور اس طرح میری مشق سخن بڑھ گئی ۔اس ماحول میں رہ کر میں نے جو غزلیں کہی ہیں ان کو ادبی حلقوں نے کا فی سراہا ہے اور عوام نے بھی، کیوں کہ آسان الفاظ میں بڑی بات کہنے کا سلیقہ میں نے فلمی دنیا میں آکر سیکھا ۔بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎‘‘

فریب وعدۂ فردا کو جانتا ہوں مگر
میں کیا کروں اگر آجائے اعتبار مجھے
غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ ،غمِ ماضی،غمِ فردا
تواضع کررہی ہے زندگی دودن کے مہماں کی

شکیل کی فلمی دنیا کی زندگی بڑی کامیاب رہی۔ان کے زیادہ ترفلمی نغمے کافی مقبول ہوئے ،۔ان کے گیت رومانیت سے بھر پور ہیں ۔فلم انڈسٹری میں قدم رکھتے ہی انہوں نے فلم ’درد ‘کے جو گانے لکھے وہ کافی پسند کئے گئے ۔خصوصاً اومادیوی پر فلمایا گیا رومانی نغمہ ’افسانہ لکھ رہی ہوں ‘نے تو مقبولیت کی ساری حدیں توڑ دیں ۔

ان کے لاجواب فلمی نغموں میں ایک عجیب کشش اور دلآویزی پائی جاتی ہے ۔ان کے گیت داخلی جذبات اور ذاتی احساسات کے ترجمان ہیں ۔ان کے گیتوں کی نمایں خصوصیت ان کی غنائیت وموسیقیت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان میں ایک اچھی شاعری کی تمام خصوصیات موجود ہیں ۔فلمی ٹھپے نے شکیل کو بہت نقصان پہنچایا اب ضرورت ہے کہ ان کے کلام اور فلمی نغموں کا ایمانداری سے تنقیدی جائز لیا جائے ،تاکہ ان کی ادبی حیثیت کا تعین کیاجاسکے۔

شکیل کی شاعری میں زندگی اور محبت کا تصور بہت ہی سادہ ،پاکیزہ اور خوبصورت ہے۔ اس تصور میں ان کی رومانیت جلوہ گر ہے ۔اسے آپ حدیث دلبری کہتے ہیں ۔یہ وہی مہذب اور لطیف تصور ہے جو جگر کے یہاں ملتا ہے شکیل کی رومانیت جگر سے بہت متاثر ہوئی ہے ۔

۳؍اگست ۶۱۹۱ء کو بدایوں میں پیدا ہونے والے شکیل نے اپنے جذبات ،احساسات اور خیالات کے اظہار کے لئے غزل کو وسیلہ بنایا اور یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ انہوں نے اس صنف شاعری کا حق ادا کردیا۔ غزل وہ صنف سخن ہے جس میں ہمارے ماضی کی شاندار تہذیب اورروایت کی ترجمانی پائی جاتی ہے ۔شکیل نے اپنے خون جگر سے غزل کی آبیاری بھی کی اور اس کے فنی لوازم کی پاسداری بھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر غزل زندگی کا آئینہ بن گئی ہے شکیل نے خود کہا    ؎

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کاہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری ،مری زندگی سے جدانہیں
تفسیر دوعالم ہے شکیلؔاپنا تغزل
میدانِ غزل چھوڑ کے ہم جانہیں سکتے

شکیل بدایونی غزل گوشاعر ہیں ۔اردو اور فارسی کلاسیکی شاعری سے اچھی طرح واقف ہیں ۔روایت پرست نہیں، روایت پسند ہیں ۔اسی روایت سے ان کی غزلوں میں ماضی کا صحیح احساس پیداہواہے ۔شکیل ایک ہر دل عزیز رومانی شاعر ہیں ۔ان کے خواب نہایت ہی البیلے اور دل فریب ہیں ۔حقیقت کی پرچھائیاں جب ان خوابوں میں ملتی ہیں تو ہم ان کی تعبیریں نہیں کرتے بلکہ ان خوابوں کی رومانیت سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ملاحظہ فرمائیں    ؎

کسی کے جلوے تڑپ رہے ہیں حدودِ ہوش وخرد سے آگے
حدودِ ہوش وخرد سے آگے نگاہ کی دسترس نہیں ہے
نہ ہوش ِخلوت ،نہ فکرِ محفل ،عیاں ہو اب کس پہ حالتِ دل
میں آپ ہی اپنا ہم نفس ہوں، میرا کوئی ہم نفس نہیں ہے

چھپ کر نگاہِ شوق سے دل میں پناہ لی
دل میں نہ چھپ سکے تو رگِ جاں میں آگئے
جوقدرِ حسن نہ جانیں مری طرف آئیں
جو رازِ عشق نہ سمجھیں ترے حضور چلیں  

اس تغزل میں جمالیاتی صفات ہیں ۔یہ تغزل ابتذال سے پاک ہے ۔لذت غم بھی ہے اور حسرت تعمیر بھی ۔شکیل کے اندرونی تجربوں کی معنی آفرینی اور ندرت کافی متاثر کرتی ہے ۔انداز بیان کاچٹیلا پن ،لہجہ کی طہارت وپاکیزگی،تغزل کی ایمائیت ورمزیت بھی قابل غور ہے ۔ان کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں کس قدر ان میں رومانیت اور شدت احساس پائی جاتی ہے    ؎

مری زندگی ہے ظالم ترے غم سے آشکارا
تراغم ہے درحقیقت مجھے زندگی سے پیارا
جن کی ادا ادا میں ہیں رعنائیاں شکیلؔ
اشعار بن کے وہ مرے دیواں میں آگئے

شکیل بدایونی نے شاعری میں اپنا الگ راستہ اختیار کیا ۔اپنے دور کے تینوںرجحانوں میں سے کسی کے اسیر نہیں ہوئے ۔نہ تو انہوں نے نئے نئے تجربوں پر توجہ دی ،نہ ترقی پسندی کی وردی پہنی اور نہ ہی جگرؔمرادآبادی کی اندھی تقلید کی ۔بلکہ وہ غزل کے حامیوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی سماجی شعور اور نئے طرز کی گنجائش ممکن ہے ۔انہوں نے صنف غزل میں اگر چہ اپنا لہجہ اور رنگ دوسروں سے الگ رکھا لیکن روایات کااحترام بھی ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔ان کی غزل کے مخصوص مزاج نئے پن اور تازگی نے اپنے عہد کے نوجوانوں کو کافی متاثر کیا تھا ۔فراق ؔگورکھپوری نے’ صنم وحرم ،کے مقدمے میں لکھا ہے :

’’ان کے لہجے پر ایک نئی آواز کا گمان ہوتا ہے جو بعض اوقات ہمارے اندر فکر وجذبات کی عجیب نیم آشنا دنیا کو بیدار کرنے لگتی ہے ۔‘‘

شکیل بدایونی کے یہاں ذاتی دکھ بھی ہے اور عصری حسیت بھی ۔الفاظ میں غنائیت بھی ہے اور خیالات میں رجائیت بھی ۔لیکن ان کے یہاں جذبات خیالات پر غالب رہتے ہیں ۔تاہم خیال کی پاکیز گی بر قرار رہتی ہے۔ شکیل کے کلام میں جذبات خیالات پر غالب ہونے کی وجہ سے انہیں رومانی شاعر کہا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔عرش ملسیانی ’ہست وبود‘میں لکھتے ہیں :

’عام طور پر شکیل کو ایک رومانی شاعر کہا جاتاہے لیکن اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ان کی شاعری قدیم رنگِ تغزل کی حامل ہے ۔جس میں حسن وعشق کی واردات بھی ہے ساقی ومیخانہ کا ذکر بھی ،چاک دل وچاک جگر کا تذکرہ بھی اور اردو شاعری کی پرانی سمبا لزم بھی۔‘

شکیل نے اپنی غزلوں میں روایات کی پاسداری کی ہے اورایسے اشعار کہے ہیں جو دل میں بیٹھ جاتے ہیں۔جن میں جذبے کی کسک ہے اور وہ مقدس پاکیزگی جس سے جذبات مشتعل نہیں ہوتے بلکہ جذبے کی تطہیر ہوتی ہے۔ جگر کے الفاظ میں’ شکیل شاعر ِفطرت ہیں، شاعر کا ریگر نہیں، ان کا کلام محض لفظی طلسم بندیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ حقیقتاً ان کا کلام ان کی زندگی کا آئینہ دار ہے‘۔غزل کا یہ رنگ دیکھئے۔

ہزار ترکِ وفا کروں میں تری محبت کو کیا کروں
دل حزیں تجھ سے روٹھ کر بھی ترے اشاروں پہ چل رہا ہے
دل غمِ جاناں سے لذت آشنا ہونے کو ہے
کافرانہ زندگی کی ابتداہونے کو ہے
اورشکیل کی یہ نمائندہ غزل تو اپنا جواب نہیں رکھتی۔

غمِ عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہونچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہونچے
میں نظر سے پی رہا تھا تویہ دل نے بد دعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہونچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہونچے
مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہونچے
نئی صبح پہ نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہونچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہونچے
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جانِ ہستی
جو زبان تک نہ آئے جو کلام تک نہ پہونچے

شکیل پروپیگنڈہ شاعر ہیں نہ کسی مخصوص نظریے کے بھونپو۔بلکہ دل نے جو محسوس کیا اسے الفاظ کے سانچے میں ڈھال دیا۔ان کا کلام’ از دل خیز بردل ریزد ‘کے مصداق ہے۔ اپنے محسوسات کو شعری پیکر عطا کرتے وقت ان کو نہ تو کسی نظریے کی پیروی کا خیال ہوتا ہے، نہ کسی دبستان کی نمائندگی کا اور نہ ہی تنقید نگار کی تنقید کا خوف ،بلکہ جو محسوس کرتے ہیں بلاتصنع اخلاص کے ساتھ پیش کردیتے ہیں۔ ان کی غزل کی رومانیت اور اس کے پھیلے ہوئے جمالیاتی دائرے میں ذاتی جذبے بھی ہیں، طبقاتی اضطراب بھی اور سماجی تصادم بھی ۔ شکیل کے بارے میں ان کے معاصر ساحر لدھیانوی رقم طراز ہیں۔:

’’شکیل کسی مخصوص مدرسہ ٔفکر یا جماعتی نظریہ فکر  کے پابند نہیں ہیں بلکہ ایک عام مخلص اور حساس فنکار کی حیثیت سے وہ جو کچھ دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں اسے زبان و بیان کی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ان کی آواز ایک مصلح کی آواز نہیں ایک مطرب کی آواز ہے۔ وہ مبلغ کم مغنی زیادہ ہیں۔ ان کی شاعری ناقد کی زبان نہیں ، دردمند کا دل ہے۔ مجاہد کے ہاتھ میں تلوار نہیں فنکار کے فکر کا نشتر ہے۔
غزل کے خالص کلاسیکی رنگ کا یہ انتہائی ستھرا شعر دیکھئے    ؎

تونے سوچا کبھی دامن کو بچانے والے
کچھ سکت ہاتھ میں ہوتی تو یہ داماں ہوتا

محبوب کی نظر سے زبان کا اور وہ بھی مجبور و بے بس زبان کا الجھنا ، بالکل انوکھی بات ہے۔ لیکن دیکھئے یہاں کس خوبصورتی سے نظم ہوئی ہے    ؎

کہاں تک اے دلِ مضطر فریبِ تابِ سکوں
الجھ پڑے گی نظر سے زباں کبھی نہ کبھی

اپنے مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے بھی شکیل کی شاعری میں کچھ منزلیں آتی ہیں کہ وہ بھر پور جوانیوں کی، ولولوں اور حوصلوں کی شاعری بن جاتی ہے۔ جس کا سراغ ہم کو محض اس قسم کے خوشگوار اشعار میں ہی ملتا ہے    ؎

تلاطم سے زور آزما کر تو دیکھیں
بلا سے اگر ڈوب جائے سفینہ
کہاں تک ختم رہتا درمیان پر دل کا افسانہ
بالآخر درمیاں سے ابتدا کرنے کا وقت آیا

۰۲؍اپریل ۰۷۹۱کو ممبئی میںدار فانی سے کوچ کرنے والے شکیل بدایونی نے غزلیہ شاعری کے علاوہ نظمیں اور قطعات کبھی کہے ہیں لیکن ان تمام میں تغزل کا رنگ نمایاں رہتا ہے اورہرجگہ رومانیت کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 722