donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jamal Owaisi
Title :
   Maajra The Story : Syed Ashraf Farid

 

ماجرا ۔ دی اسٹوری(ملت اسلامیہ کے سماجی اور سیاسی منظرنامے کا عکس

مصنف :سید اشرف فرید

ترتیب کار: ڈاکٹر منصورخوشتر

سنہ اشاعت :۲۰۱۴ء

ناشر :المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ

مبصر :     جمال اُویسی


 

    ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ’’ماجرا ۔ دی اسٹوری‘‘ اردو میں اپنی نوعیت کی شاید پہلی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ اگر اس نوعیت کی کوئی کتاب ماضی میں شائع ہوئی ہے تو یہ میری کوتاہی ہوگی کہ میں نے اس کو نہیں پڑھا۔ ’’ماجرا۔ دی اسٹوری‘‘ اپنے عنوان سے چونکانے والی کتاب ہے۔ عنوان میں ندرت ہے اورتھوڑی سی اجنبیت بھی۔ دراصل یہ کتاب ’’قومی تنظیم‘‘ کے چیف ایڈیٹر سید اشرف فرید کے ان مضامین کا انتخاب ہے جو روزنامہ میں ایک مدت تک شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین سیاسی نوعیت کے سوال اٹھاتے ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوںکے صحیح مقالہ و مرتبہ کو لے کر بحث کرتے ہیں۔ ان مضامین کی سب سے بڑی خوبی ان کا متین لہجہ ہے اور اشتعال انگیزی کے بجائے ایک دانش ورانہ جرأت مندی پوری کتاب کی روح ہے۔’’ماجرا۔ دی اسٹوری‘‘ کے مضامین کو ترتیب دے کر ڈاکٹر منصورخوشتر نے المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیراہتمام شائع کیا ہے۔ کتاب کی پیش کش میں تین لوگوں کی حصہ داری ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر منصورخوشتر نے مضامین کے یکجا ہوکر شائع کرنے کا جواز پیش کیا ہے، لکھتے ہیں:


    ’’آج کا مسلمان مسلمان ہونے کی اذیت میں مبتلا ہے۔ اس پر نیشنل میڈیا میں بھی کبھی کبھار بات ہوجاتی ہے اور کچھ سیکولر قسم کے لوگ اس معاملہ میں بحث و مباحثہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان معاملات کو جس طرح میڈیا میں آنا چاہئے اور ان پر بات ہونی چاہئے ہم جانتے ہیں کہ ان سے یکسر بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ خود ملت اسلامیہ میں اس کو لے کر بیداری نہیں ہے۔‘‘ (ص: ۷)
ڈاکٹر منصورخوشتر کا آخری جملہ ایک سنگین حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ان دنوں ایک شدید قسم کی مذہبیت میں مبتلا ہیں۔ ان کے درمیان ایک نوع کی بے حسی پائی جاتی ہے اور یہ بے حسی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے تعلق سے ہے۔ ہندوستان کے مسلمان سماج میں ایک برتر سطح پر زندہ رہنے کی کوشش سے بے نیاز ہیں۔ زندگی کی ہر دوڑ میں تعلیمی اور سیاسی اپروچ کے اعتبار سے پچھڑے ہوئے ہیں۔ ہرسال آئی اے ایس، آئی ایف ایس، آئی پی ایس اور دیگر مرکزی امتحانوں میں مسلمان کی شمولیت کم ہوتی جارہی ہے اور اسی نسبت سے ملک کے اعلیٰ عہدوں پر ان کی منصبی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو شبہہ کی بنیاد پر گرفتار کرکے جیل کی صعوبتوں کے حوالے بھی کیا جارہا ہے جس کے پیچھے اکثریت کی خطرناک سیاسی سوچ کار فرما ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں میں فساد کرایا جانا ایک خطرناک منصوبہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں فسادات کے تحت کمزور اور غریب مسلمانوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ اس جرم کے ذمہ دار بھی وہی لوگ ہیں جو Human Rights کے تحت انسانی برابری کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مسلم قوم اپنی تباہی میں خود شریک بھی ہے۔


    دوسری تحریر ’’آغازیہ‘‘ کے تحت پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ صاحب کی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ کی کتاب میں طرزی صاحب کے منظوم کلام کے بجائے نثر دیکھنے کو ملی ہے۔ بصد اشتیاق میں نے دو صفحہ پر مشتمل یہ تحریر پڑھی اور احساس ہوا کہ اگر طرزی صاحب نثر کی طرف بھی متوجہ ہوجائیں تو یقینا صف اول کے نثر نگاروں میں شامل ہوں گے۔


    تیسری تحریر کا عنوان ’’دو باتیں‘‘ ہے جسے جناب فیاض احمد وجیہہ نے لکھا ہے۔ فیاض احمد وجیہہ میرا خیال ہے کہ اب تک ڈاکٹر کی سند سے نوازے جاچکے ہوں گے۔ ان جیسے نوجوانوں کو پروفیشنل ڈگری کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ان کی ادبی صلاحیت پر ابھی سے لوگ رشک کررہے ہیں۔ بلا شبہ انہوں نے بھی کتاب کے مضامین کے تعلق سے کچھ چشم کشا باتیں لکھی ہیں۔ یہ تینوں تحریریں کتاب کی پیش کش کو پروفار بناتی ہیں۔


    کتاب میں موجود ۴۴ مضامین میں بیشتر مضامین مسلمانوں کی زبوں حالی، ان کے سیاسی انکاؤنٹر اور مسلم نوجوانوں کی بے قصور گرفتاریوں سے متعلق ہیں۔مجھے اس قسم کے مضامین سے زیادہ تعلق ہے اور ایک ایماندار ادیب ہونے کے ناطے مسلم طبقہ کے کرب کو جس طرح محسوس کیا ہے اس کے پورٹریٹ کو پڑھتے وقت میرے دکھ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جیساکہ میں نے ابھی لکھا ہے کہ ہندوستان کا مسلم طبقہ اپنی زبوں حالی کا خود  بھی ذمہ دار ہے۔ مگر سب سے بڑی سچائی تو یہ ہے کہ آج پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف سیاسی تنظیموں نے مورچے کھول دئیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کا ملک نہیں ہے۔ مسلمانوں کی زمین کہیں نہیں۔ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے جب کہ ہندوستان کی تاریخ اور اس کا ماضی ایک دوسری کہانی بیان کرتا ہے۔ آج ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں میں مسلم ایم پی اور ایم ایل اے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ انہیں سیاسی پارٹیاں کم سے کم ٹکٹ دے کر پارلیامنٹ اور اسمبلی  میں بھیج رہی ہیں۔


    سیداشرف فرید صاحب نے اپنے مضامین میں جدید ہندوستان کی ہر سیاسی کروٹ پر مضمون لکھا ہے اور حکومت کی دوسہری پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کا نوک قلم کسی سیاسی پارٹی کا حلیف نظر نہیں آتا۔ وہ بے لاگ لکھتے ہیں۔ ان کے یہ مضامین سیاسی، علمی، ادبی اور ثقافتی سطح پر متاثر کرتے ہیں اور ان کے فوری اپیل کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ دانش ور طبقوں میں بھی ’’ماجرا۔ دی اسٹوری‘‘ مقبول عام ہوگی۔


--------------------------------------------------

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 405