donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Aur Sham Thahar Gayi - Dr Najma Shaheen Khosa Ka Aik Aur Shahkar


’’اور شام ٹھہر گئی‘‘۔۔۔۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا ایک اور شاہکار


(حسنین ساحر Hasnain Sahir -)


 
    ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘۔۔۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا حال ہی میں منظرعام پر آنے والا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔جوحمد، نعت، غزلوں، نظموں اور گیتوں پر مشتمل رنگارنگ خیالات و جذبات کا مرقع ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کی غزل سچے اور کھرے جذبات کی عکاس ہے۔ چونکہ انکی غزل معروضی حالات کا صاف شفاف آئینہ ہے، اس لئے اس کے بین السطور خود اپنی زندگی اور معاشرتی اقدار کی سچی اور منہ بولتی تصویر نظر آتی ہے۔ وہ شعر کے باب میں’’کاتا اور لے بھاگی ‘‘ کی قائل نہیں بلکہ ان کا عمل ’’سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ پر ہے۔ وہ شعر نہایت غوروفکر، مشاہدے اور ذاتی تجربے کے زیراثر نہایت سوچ سمجھ کر کہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار دھنک رنگوں کی طرح اپنی رنگینی و رعنائی اور تاب و توانائی کی بدولت دِلوں میںبہت جلد اپنا مقام پیدا کر لیتے ہیں۔ حقیقت تحریر ہے کہ ان کا کلام ’’ازدل خیزدبردل ریزد‘‘ کی زندہ مثال ہے:

اس سے بڑھ کر میری وفا کاکوئی نہیںگواہ
غزلیں، نظمیں،سجدے، آنسو اور اک شب سیاہ  
۔۔۔۔۔
کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو
ایک محبت جا سوئی تھی وحشت میں ویرانی میں

۔۔۔۔۔

پھر عشق کے بازار میں نیلام ہوا کیوں؟
اے عشق بتا تیرا یہ انجام ہوا کیوں؟

۔۔۔۔۔
شہرنگاراں، محفل یاراںبھول گئے سب دل والے
دورِزمانہ دیکھ کے ہم نے خود کو خود سمجھایا ہے
دکھ کے لمحوں میں میرا ایک سہارا ماں ہے
میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہے
تپتے صحراؤں میں کس طرح بھٹک سکتی ہوں
مجھ کو جو راہ دکھائے وہ ستارہ ماں ہے

 

     انکی شاعری ایک ایسی آواز ہے جو ہر پڑھنے والے کو اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ انکی غزل ایک سبک رو  ندی کی مانند زندگی کے ریگزاروں میں قدم قدم پر لالہ و گل کھلاتی ہوئی رواں دواں نظر آتی ہے۔ انکی شاعری میں اپنے اطراف بکھری ہوئی زندگی اور خلقِ خدا  اور ان کے دُکھوں ، امیدوں، آرزؤں کا بیان بہت اخلاص اور دردمندی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ انکے اشعار کی تاثر آفرینی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ کسی ایسی فنکارہ کی سوچ کے عکاس ہیں جس نے زندگی اور اسکے متعلقات کو نہایت زیرکی سے دیکھا ہے اور پھر اپنے تاثرات کو دوسروں کے سامنے آئینے کی صورت رکھا ہے۔ان کے کلام میں صرف نسائی جذبات ہی نہیںبلکہ معاشرتی ناآسودگیوں کا تذکرہ بھی ہے، انسانی تمنائوں کے مدفن بھی ہیں اور حریت فکر کے پہلو بھی ہیں:

یہ دیس جس میں ہے نفرتوں کا ہی راج ہر سو
محبتوں کی ہو راجدھانی تو نیند آئے
۔۔۔۔
بس یہاں پر شور ہے اور سسکیاں ہیں چار سُو
یہ جہاں لگتا ہے دہشت کا ہی گھر ہو جائے گا
۔۔۔۔
ہاتھ پر جس کے لہو تھا بے گناہوں کا یہاں
شہر میں وہ شخص ہی تو صاحب دستار ہے
۔۔۔۔
سوہنیاں ڈوب رہی ہیںابھی دریائوں میں
اور مہینوال نہیں موج کی للکار کے ساتھ

 
    غزلوں کے ساتھ جب انکی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو انکی نظموں کے مضمون یعنی خیال کی اہمیت، جذبے کی شدت اور انداز بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔’’ اور شام ٹھہر گئی‘‘  میںشامل نظمیں موضوعاتی اور فکری لحاظ سے منفرد ہیں۔ اُن کی نظمیں ’’یہ مرا انت ہے،  ایک سوال،  یہ عشق بستی بسانے والو،  محبتوں کا یہ طورسینا، گرہم کو تم جھٹلاوٗ گے، بکتے دیکھاجہاں،  سہارا ماںہے‘‘  اس بیان کی دلیل ہیں۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین نے پوری سچائی سے نسائی جذبات کو اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔ وہ عورت کی باطنی کیفیات کے زیر و بم کو صداقتوں کے حوالے کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔وہ ایسی عورت کی جھلک پیش کرتی ہیں جو عشق میں پاکبازی کی ردا  سر پر رکھے اپنا سماجی سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کا کلام پے در پے شکست کی جراحتوں کے ملال کا قصہ سناتا ہے۔ جس میں حوّا کی بیٹی کی مظلومیت کا قصہ ہے، عدم تحفظ کا قصہ ہے، جبر ہے، سنگدل معاشرے کی بے حسی کا تذکرہ ہے۔ انکے ہاں شعر میں جذباتی نا آسودگی اور سلگتے ارمان، عورت کی نفسیات کے پراسرار نہاں خانوں کی مکمل تصویریں ملتی ہیں:

                اے زمیں قبر جتنی جگہ چاہئے
                ایک حوّا کی بیٹی کی فریاد ہے
                بس مدد چاہئے ، ہاں مدد چاہئے
                مجھ کو معلوم تھا یہ زمیں ماں ہے مجھ کو نہ ٹھکرائے گی
                یہ مگر کیا ہوا وہ بھی ہنسنے لگی  (یہ مرا انت ہے)
                        ۔۔۔۔


     ’’دسمبر‘‘ بھی محبت کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ بھیگی صبحیں، اداس شامیں، تنہا راتیں، ہجروفراق، یادِماضی اور افسردگی
دسمبرکے مزاج کا خاصہ ہیں۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری پر بھی اس ــ’’دِسمبری مزاج‘‘ کا گہرا اثرہے:

                مہینہ ہجر کا جب بھی میرے آنگن میں آتا ہے
                اداسی کے ہر اک منظرکو وہ موجود پاتا ہے
                نگاہوں کو جھکا کر بس دسمبر لوٹ جاتا ہے

    ڈاکٹر نجمہ شاہین کے ہاں’’سادگی میں پرکاری‘‘ کا عمل نظر آتا ہے۔ ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ میںایک بھی نظم ایسی نہیں جو تجریدی ہواور قاری کے سر کے اوپر سے گزر جانے والی ہو۔ ان کے استعارے بڑے واضح اور خیال ابلاغ کی بھرپور صلاحیت لئے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ایک اچھا نظم گو  لفظوں سے مصوری کرنے کا ہنر جانتا ہے ۔نجمہ شاہین کی شاعری میں موضوعات قدرے بولتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں جہتیں اور بے شمار حقیقتیں ایسی ہیں جو تخلیق کار کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور لکھنے والا اپنے جوہر کے مطابق لکھ دیتا ہے۔معروف ادبی شخصیات نے انکی ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:  

        ’’ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں آجکل کی بیشتر خواتین شعراء کے مقابلے میں ایک مخصوس بے باکی کی         بجائے ایک قسم کا Restraint  پایا جاتا ہے۔ بات کو نہ کہتے ہوئے بھی کہہ جانے کا یہ رنگ خوشنما بھی ہے         اور دلکشا بھی‘‘ (امجد اسلام امجد
 
        ’’ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری کا رنگ حنائی ہے۔ حنا ہمیشہ دو رنگوں کا امتزاج ہوتی ہے۔ حیادار سبز رُتوںکے         اندر جذبوں کا سرخ رنگ بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے تو غنائی سُر بیدار ہونے لگتے ہیں جو سہاگ کی گت پہ ملن             کے گیت چھیڑ دیتے ہیں اور وراگ کے موسم میں ہجر کی کافیاں سناتے ہیں‘‘  (بشریٰ رحمٰن
 
    خوبصورت سچا اور اچھا خیال خواہ کسی شکل میں کسی صنف میں بیان کیا جائے، وہ پڑھنے یا سننے والے پر گہرا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین پختہ عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں اور شعری افق پر پوری توانائی کے ساتھ جگمگا رہی ہیں۔کسی فنکار کا فن یاتخلیق کار کی تخلیق علاقائی حدود و قیود سے ماورا ہوتی ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کے فن اور شخصیت پر لکھے

 گئے زیادہ تر مضامین اور تبصروں میں انہیں علاقائی سرحدوں میں مقید رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کے جواب میں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ شاعری ایک خوشبو ہے جس کے لیے علاقائی یا لسانی سرحدیں بے مایہ ہیں۔ باقی صدیقی نے اپنی مختصر پوٹھواری نظم ــ ’’آزادی‘‘  میں کیا خوب کہا ہے:

                اُچیاں کندھاں
                ڈَک نہ سکن
                پھُلاںنی خوشبو

٭٭٭

حسنین ساحر، اسلام آباد
0333-5443633

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 900