donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Masihuzzama, Ahmadabad
Title :
   Ehtesab Fikro Nazar Aur Meezane Sukhan Aik Sarsari Jayeza

’’احتسابِ فکر ونظر‘‘ اور ’’میزانِ سخن‘‘ ایک سرسری جائزہ


  (٭ڈاکٹرمسیح الزماں(احمد آباد


    جہانِ اردو کے لئے یہ خبر باعثِ مسرت وافتخار ہے کہ اردو کے نامور ادیب و ناقد ڈاکٹر مشتاق احمد کی دو تحقیقی وتنقیدی کتابیں ’’احتسابِ فکر ونظر‘‘ اور ’’میزانِ سخن‘‘ منظرِ عام پر آئی ہیں اوریہ دونوں کتابیںموضوعات ومشمولات کے اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہیں کہ ’’احتسابِ فکر ونظر‘‘ میں اردو زبان وادب کے نثری اثاثے کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے جب کہ ’’میزانِ سخن‘‘ میں شعری ادب پر تنقیدی وتحقیقی مطالعہ شامل ہے۔ حلقۂ ادب میں ان کتابوں کی اشاعت کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔واضح ہو کہ قبل از ڈاکٹر احمد کی ایک درجن تحقیقی وتنقیدی کتابیں بہ زبانِ اردو اور تین کتابیں بہ زبانِ انگریزی شائع ہو چکی ہیں ان میں ’’اقبالیات کی وضاحتی کتابیات، اقبال کی عصری معنویت، تنقیدی تقاضے، جہانِ فیض اور قرطاسِ مہر‘‘ حوالہ جاتی کتب میں شمار ہوتی ہیں۔ڈاکٹر مشتاق احمد کی ادارت میں شائع ہونے والا ریسرچ جنرل ’’جہانِ اردو‘‘ دربھنگہ کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اورگذشتہ بارہ برسوں سے تشنگانِ ادب کو سیرابی بخش رہا ہے۔’’میزانِ سخن‘‘ میں جن شعراء کے فکری اثاثے کو دائرۂ تنقید وتحقیق میں لایا گیا ہے ان میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، مجاز، پرویز شاہدی، فراق، کیفی اعظمی، جگن ناتھ آزاد، جذبی، مظہر امام ، شہر یار اور طاہر سعید ہارون شامل ہیں۔ڈاکٹر احمد نے اپنے مقدمہ میں اپنا نظریہ نقد بھی واضح کیا ہے اور ایک فنکار کی اـزلی وابدی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
 ’’ہر فنکار کا اپنا ایک نظریۂ زیست ہوتا ہے اور وہ اسی کی بدولت اپنے فن کی تخلیق کرتا ہے ٹھیک اسی طرح قاری کا بھی ایک خاص نظریۂ نقد ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ اس فنکار کے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تخلیق کار نے جس نظریے سے اپنے فن کی تخلیق کی ہے قاری تخلیق کار کے اس نظریے کا قائل ہو یا پھر فنکار کی فطری سطح تک یکساں رسائی رکھتا ہو۔ یہ وجہ ہے کہ کسی شعر کی قرأت کے بعد ایک قاری اگر کچھ اور معنی متعین کرتا ہے تو دوسرے قاری کی نگاہ میں شعر کے معنی کا تصور کچھ اور ہوتا ہے اور افہام وتفہیم کی یہی ہمہ گیری کسی فنکار کی عظمت کا ضامن ہوتا ہے ‘‘۔ 


ڈاکٹر احمد نے عہدِ حاضر یعنی گلوبلائزیشن کے دور میں زبان وادب کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ بقول ڈاکٹر احمد:

’’اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کی صدی ہے۔ جدید ایجادات اور جدید دریافتوں کے سبب روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں اوریہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سائنسی انکشافات دریافتیں اور نئی تحقیقات ابھی اپنی آخری منزل کو نہیں پہنچی ہیں بلکہ جب تک دنیا ہے اس وقت تک ایسے انقلابات ہوتے رہیں گے اور ممکن ہے کہ ہروہ شئے جو انسان کی ضروریات میں شامل ہیں کل وہ بیکار ثابت ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی دوسری ایجاد قابض ہو جائے۔ آج جدید سائنسی ٹکنالوجی نے دنیا کو جامِ جم میں تبدیل کردیا ہے اور انسان کی زندگی کے

 تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی جینے کے طریقے بدلیں گے تو اس انقلاب سے اس کی تہذیب اور زبان بھی لازمی طورپر اثر انداز ہوگی‘‘۔

    ’’میزانِ سخن‘‘ میںمشمولہ مقالہ’’ اردو شاعری میں حب الوطنی کے عناصر ‘‘نہ صرف موضوع ومواد کے اعتبار سے چراغِ نو کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس مقالے میں فاضل مصنف کے منفرد طرزِ اظہاراور تنقیدی بصیرت وبصارت کابھی پتہ چلتا ہے۔بقول ڈاکٹر احمد:

’’ حقیقتاً حب الوطنی اپنے مادرِ وطن کے جغرافیائی حدود سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں غلامی، غربت وافلاس میں تڑپنے والوں کی چیخ وپکار کو سن کر آہیں بھرنا ،عیار ومکار سرمایہ داروں سے نفرت کا اظہار کرنا ، ہر طرح کے استحصال کے خلاف جنگ لڑنے کا حوصلہ رکھنا ، اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لئے جدو جہد کرنا اور اپنے ہم وطنوں کو روشن مستقبل کی نوید دینا ہے۔ اگر کسی شاعر کے فکری اظہار میں مذکورہ عناصر موجود ہیں تو ہم اس شعری اثاثے کو وطنی یا قومی شاعری کے زمرے میں شمار کر سکتے ہیں‘‘(ص:۷)

    مختصر یہ کہ’’ میزانِ سخن‘‘کے مختلف النوع مضامین اردو شاعری کو نئے زاویے سے دیکھنے کی ایک کامیاب کوشش اور   اردوشاعری کے متعلق جو غیر یقینیت اور غیر محفوظیت کا احساس ہے اس کا ازالہ کرتے ہیں۔یہ کتاب ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے اور 160صفحات ہارڈ کور کی قیمت 200روپے ہے۔میرے خیال میں جہانِ ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے یہ کتاب ایک بیش بہا ادبی خزینہ ہے۔

    دوسری کتاب ’’احتسابِ فکر ونظر ‘‘ میں ڈاکٹر احمد نے اردو کے نثری اثاثے کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ پیش کیا ہے اور مشمولہ مضامین میں سرسید احمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، پریم چند، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر لطف الرحمن، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی وغیرہم کے افکارونظریات کا احتسابی جائزہ لیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ترقی پسند تحریک کی تاریخی وادبی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ ڈاکٹر احمد کے مطابق:

’’ ترقی پسند تحریک ملک کی وہ پہلی تحریک تھی جس کے علمبرداروں نے شعوری طورپر اپنا رشتہ نہ صرف زبان وادب سے جوڑا تھا بلکہ مکمل شعبۂ حیات سے بھی استوار کیا ۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جسے اس تحریک نے اثر انداز نہیں کیا ہو۔ ترقی پسند تحریک نے انسانی معاشرہ کے تمام تاریک گوشوں تک روشنی پہنچانے کا جو عہد کیا تھااس کے لئے اس کا کارواں رواں دواں رہا‘‘(ص:۴۱)
مولانا آزاد کے متعلق فاضل مصنف کی یہ رائے حرف بہ حرف صداقت پر مبنی ہے کہ :

’’مولاناآزادایک مذہبی انسان تھے اور ایک سچا مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے ۔ ان کاخیال تھا کہ مذہب قومیت کے تصور میں کہیں دیوارنہیں بنتا بلکہ مذہب انسان کے اندر تعمیری فکر پیدا کرتا ہے اور انسان دوستی و حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتا ہے ‘‘(ص:۳۳)

اردو زبان وادب کے تعلق سے ڈاکٹر احمد کی یہ رائے بھی قابلِ ذکرہے کہ :

’’اکیسویں صدی میں اردو زبان وادب کے سامنے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر اردو زبان کس طرح بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے ۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے میں انقلاب برپا ہو گیا ہے اور جس کی شدت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔اب چوں کہ دنیا ایک بازار بن گئی ہے اس لئے ہر ایک میدان میں مقابلہ بڑھ گیا ہے اور جس کی وجہ سے روایتی زندگی کا توازن بھی یکسر بدل گیا ہے۔ ادب میں بھی کچھ اس طرح کی تبدیلی رونما ہورہی ہے ۔ ظاہر ہے جب زندگی جینے کے طریقے بدل رہے ہیں تو زندگی کا آئینہ یعنی ادب میں بھی ہماری تصویر بدلے گی اور ضرور بدلے گی کہ یہ ایک فطری عمل ہے‘‘۔

’’احتسابِ فکر ونظر‘‘ میں ڈاکٹر احمد نے اپنا نظریۂ نقدبھی پیش کیا ہے۔ موصوف رقم طراز ہیں :
’’ہماری اردو تنقید سو سال سے زائد کا سفر طے کر چکی ہے کہ حالیؔ کے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ اور امداد امام اثر کے ’’کاشف الحقائق ‘‘سے اردو میں باضابطہ تنقید کی بنا پڑی۔ قبل از اساتذہ کا اپنے تلامذہ کے کلام پر ا صلاح یا تذکرہ نگاروں کی رائے تک ہی اردو تنقید کی دنیا محدود تھی مولانا محمد حسین آزاد نے ’’آبِ حیات‘‘ میں جو تنقیدی آرا پیش کی اسے آپ چراغِ نو تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے وہ انکارنہیں کر سکتے کہ مولانا آزاد کی تنقید ان کی ذاتی پسند ونا پسند تک محدود تھی اس لئے ان کی نگاہ میں استاد ذوقؔ کی شاعری کے سامنے مرزا غالبؔ کی شاعری ہیچ نظر آتی ہے یاپھر دوسرے شعرا پر بھی ان کا تبصرہ محض برائے تبصرہ ہی ہے۔لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے بعد مغربی نظریہ نقد کے اثرات نے اردو کی فضا کو سازگار کیا اور اب اردو تنقید کے معیار ووقار کا خیال رکھا جانے لگا لیکن مغربی فکر نے مشرقی نظریۂ نقد کا بیڑہ بھی غرق کیا۔حالیؔ، اثرؔ ا ورشبلیؔ کے افکار ونظریات سے استفادہ کرنا معیوب اور کم علمی تصور کیا جانے لگا جب کہ مغربی نقادوں کے افکارونظریات کی نقالی کو دانشوری سمجھا جانے لگا۔تخلیق کار آئینۂ تنقید میں اپنی مکمل تصویردیکھنے کا اضطراب لئے ناقدینِ ادب کے حضور میں سلام پیش کرنے لگا ۔ تخلیق کار کی یہ جی حضوری ایک طرف تنقیدی سرمایے میں اضافے کی باعث بنی تو دوسری طرف تنقید کے نام پر قصیدہ وتنقیص کاانبار جمع ہونے لگا ۔ گروہ بندی پروان چڑھنے لگی اورتنقید میں یہ روش عام ہونے لگی کہ ’’تم مجھے برانہ کہو اور میں تمہیں اچھا لکھوں‘‘۔

    غرض کہ ’’احتسابِ فکر ونظر کے مضامین اردو نثر کی تنقید کے باب میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ڈاکٹر احمد کی تحقیقی وتنقیدی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔یہ کتاب بھی ا یجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے اور 144صفحات پر مبنی دیدہ زیب کوروالی کتاب کی قیمت 200روپے ہے ۔ ’’احتسابِ فکر ونظر‘‘ کے مضامین ہمارے ذہن کے کئی تاریک گوشے کو روشن کرتے ہیں  بالخصوص سرسید احمد خاں اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ساتھ پریم چند وخواجہ احمد عباس کی تعمیری واصلاحی فکر ونظر سے آگاہ کراتے

 ہیں۔میرے خیال میں جہانِ ادب کے سنجیدہ حلقے میں یہ کتابیں مقبول ہوں گی اور ڈاکٹر مشتاق احمد کی یہ علمی وادبی کاوش رائیگاںنہیں جائے گی۔

**********************

 

    

Comments


Login

You are Visitor Number : 836