donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mansoor Khushtar
Title :
   Anwarul Hasan Wastavi Ke Naqooshe Qalam Naqsh haye Rang Rang


ڈاکٹر منصور خوشتر


ایڈیٹر’’ سہ ماہی’’دربھنگہ ٹائمس

پرانی منصفی، ‘‘ دربھنگہ‘‘بہار (الہند)

+9234772764

 

انوار الحسن وسطوی کے’’نقوش قلم‘‘ کے

 

نقشہائے رنگ رنگ

                     

    انوار الحسن وسطوی اردو کے ایک سچے اور بے لوث خادم ہیں۔ وہ عرصے سے اردو زبان کی بقا و تحفظ اور فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔وہ نام و نمود کی فکر سے بے نیاز ہو کر خاموشی سے کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ بطور مدرس وہ اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن بطور خادم اردو وہ پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہو چکے ہیں۔ گذشتہ چند دہاہیوں میں بہار میں اردو تحریک کو زندہ کرنے اور اردو کے نفاذ کے لیے انتہائی سرگرم رہے ہیں جس نے نہ صرف اردو زبان کے مسائل سے ماہرین کو واقف کراتے ہوئے ان کے حل کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ دو نسلوں کی تربیت بھی انہوں نے کی ہے اور انہیں قلم پکڑنا سکھا یا ہے اور اردو کے کاز کے سوچنے اور اقدام کرنے کا بھی حوصلہ عطا کیا ہے۔ میں ذاتی طور پر انوار الحسن وسطوی صاحب کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ان کی خدمات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔انوار الحسن وسطوی صاحب کے تعلق سے پروفیسر ثوبان فاروقی نے بالکل درست لکھا ہے کہ

    ’’موصوف (انوار الحسن وسطوی) کو میں اس خطۂ ارض (ویشالی) کا بابائے اردو تسلیم کرتا ہوں اور اپنے عقیدے پرجو بربنائے اخلاص ہے، استقامت کے ساتھ قائم ہوں۔۔۔۔۔ انوار الحسن کا عشق اردو بھی حد جنون میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ اردو میں سوچتے ہیں اور خواب بھی اردوزبان میں ہی دیکھتے ہیں۔‘‘

    جو لوگ انوار الحسن وسطوی کی شخصیت اور خدمات سے واقف ہیں وہ پروفیسر فاروقی کی رائے سے بالکل بھی اختلاف نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی اردو کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ اردو زبان خود ان کے گھر میں بھی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی اردو کی اعلیٰ تعلیم دلائی۔ ان کے فرزند عارف وسطوی بھی تیزی کے ساتھ اردو دنیا میں اپنی شناخت بنارہے ہیں۔ آج اردو کے تعلق سے یہ جذبہ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اردو کے بیشتر اساتذہ اپنے بچوں کو اردو تعلیم دلانا نہیں چاہتے۔ ایسے میں انوار الحسن وسطوی جیسے لوگ معاشرے کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہیں۔میں جناب انوار الحسن وسطوی کی اردو دوستی کے اس جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں اور پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب تک انوار الحسن وسطوی جیسے لوگ موجود ہیں اردو زبان کا مستقبل بھی روشن و تابناک ہے۔ ابھی حال ہی میں ان کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’نقوش قلم‘‘ کے عنوان سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔    

    نقوش قلم کے مضامین سے مصنف کے ادبی و لسانی ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس سے قبل ’’رشحات قلم‘‘ کے عنوان سے بھی ان کے مضامین کا ایک مجموعہ منظر عام پر آ چکا ہے جس کی علمی و ادبی حلقے میں پذیرائی بھی ہوئی ہے۔ زیر نظر تصنیف ’’نقوش قلم‘‘ میں مختلف عنوانات پر 15 مضامین اور 15 تبصرے شامل ہیں۔ابتدائی 13مضامین مختلف علمی ، ادبی و سیاسی شخصیات پر مبنی ہیں۔ یہ زیادہ تر تاثراتی نوعیت کے ہیں۔ البتہ آخر کے دو مضامین اردو کے تعلق سے بھر پور معلوماتی اور دعوت غور و فکر دینے والے ہیں۔بہار میں اردو تحریک کے حوالے سے آپ کی تحریر کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں۔ اردو تحریک سے جڑے لوگوں کو وسطوی صاحب کی یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہئے۔ ان کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہار میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں ہمارے اسلاف نے کیسی کیسی قربانیں پیش کی ہیں۔’’اردو کا سچ‘‘ بھی اسی تناظر میں لکھا گیا ایک عمدہ مضمون ہے جس میں اردو کے تعلق سے عام لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔وسطوی صاحب کا خیال بالکل درست ہے کہ

’’ ہمیں یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہئے کہ ہندوستان میں رہ کر اگر ہم اردو کو چھوڑ دیں گے تو اسے اردو کا جتنا نقصان ہوگا، اس سے کہیں زیادہ خود ہمارا نقصان ہوگا۔ ہماری بیشتر مذہبی کتابیں جو ہمارے لیے مذہبی سرمایہ ہیں وہ اردو زبان میں ہی محفوظ ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں نے اردو کے ذریعہ ہی مذہب اسلام کو سمجھا اور جانا ہے۔ اس لیے اردو کو چھوڑنا اپنی تہذیب اور اپنے مذہب سے دور ہو جانے کے مترادف ہے‘‘۔(صفحہ133)

انوار الحسن وسطوی نے جو مضامین تحریر کئے ہیں حالانکہ وہ تاثراتی انداز کے ہیں لیکن فنون کا مطالعہ کرتے ہوئے تخلیقات فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی ہے جس سے ان کی ادبی فکر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ قصیر صدیقی کی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قیصر صدیقی کی غزل گوئی کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی زبان صاف وشفاف اور رواں ہے۔ ان کی غزلوں کے اشعار میں سادگی اور پرکاری ہوتی ہے اور ان میں کوئی پیچیدگی یا ابہام نہیں ہے۔ قصیر صدیقی در اصل گونا ں گوں تجربات ومشاہدات کے شاعر ہیں۔ اس لیے انہوں نے زندگی کے عام تجربات اور روز مرہ کے مشاہدات سے اپنی شاعری کا نگار خانہ سجایا ہے۔ قیصر صدیقی کے یہ تجربات ومشاہدات مستعار نہیں بلکہ ان کے اپنے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو خوبصورت اور سہل الفاظ میں بیان کر کے قاری کو ہم فکر، ہم خیال اور ہم زبان بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۸۱)

    اس کا اندازہ ایسے تقریبا تمام مضامین میں ہوتا ہے جس میں انہوں نے کسی ادیب یا شاعر کے فنون کو موضوع بنایا ہے۔ بدر محمدی کی غزل گوئی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیںـ:

’’بدر محمدی اپنی غزلوں میں عشق ومحبت پر توجہ مرکوز نہیں کرتے بلکہ وہ ایک حساس انسان کی طرح معاشرتی حقائق ومظاہر پر غور وفکر کرتے ہیں اور انہیں قالب شعر میں ڈھالتے ہیں جس میں ان کا ذاتی رد عمل بھی شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کا یہ رد عمل جذبات واحساسات کی رو میں بہہ کر نہیں ہوتا بلکہ اس کسوٹی یا معیار کے مطابق ہوتا ہے جو ایک فرد یا فنکار اپنے مطالعے یا مشاہدے سے حاصل کرتا ہے۔ ‘‘(صفحہ۱۱۷)

    اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انوار الحسن وسطوی کے یہاں تہذیب واقدار انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی بھی شاعر یا ادیب جنہوں نے تہذیب واقدار کے فروغ کو موضو ع بنایا ہے وہ وسطوی کے ذہن کوخصوصی طور پر متوجہ کرتے ہیں۔ وسطوی ایسی ادبی کاوش پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور ٹھہر کر اس کی تشریح وتعبیر بھی کرتے ہیں۔ یہ فضا عمومی طور پر پوری کتاب میں ملتی ہے ۔ قوس صدیقی کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے :

’’قوس صدیقی کی شاعری اپنے مواد کے اعتبار سے اپنی تہذیبی وراثت پر اصرار کرتی ہے۔ ان کے یہاں اپنی تہذیب کا احترام اور اعلی اقدار کی سچائی کا اعتراف جا بجا ملتی ہے۔ شاعر کے اسلامی مزاج کا پتہ ان کے مجموعۂ کلام ’’لفظاب‘‘ کے انتساب سے ہوتا ہے جسے انہوں نے دربارِ رسالت کے شاعر حضرت حسان بن ثابت کے نام کیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۱۰۹)

    اس طرح اس کتاب کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان سے ان کا رشتہ جذباتی ہے اور وہ اپنی زبان کو اپنی تہذیب، اپنے مذہب اور اپنی علمی وادبی روایات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

    ’’نقوش قلم ‘‘میں شامل تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انوار الحسن وسطوی کتابوں کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ان کے تبصروں میں کتابوں کا بھر پور تعارف موجود ہوتا ہے۔وسطوی صاحب کے زیادہ تر تبصرے ایسی کتابوں پر لکھے گئے ہیں جو بڑے مصنفین کی نہیں ہیں۔یقینا ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ویسی معیاری کتابوں کو قارئین و شائقین کے سامنے پیش کیا جائے جو بڑے مصنفین کی نہیں ہو نے کی وجہ سے قابل توجہ نہیں سمجھی جاتی ہیں۔

    میں جناب انوار الحسن وسطوی کو ان کے دوسرے مجموعہ مضامین ’’نقوش قلم‘‘ کی اشاعت پر ایک بار پھر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کی یہ کتاب بھی سابقہ کتاب کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مقبول عام ہوگی۔
                                                
 جس کی آج تقریب رسم اجرا منائی جا رہی ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے آج کی اس خوبصورت محفل میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس عزت افزائی کے لئے میں جناب انوار الحسن وسطوی اور آج کی اس پروقار تقریب کے منتظمین کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

 

MANSOOR KHUSHTER
EDITOR
DARBHANGA TIMES

PURANI MUNSAFI DARBHANGA
9234772764
mansoorkhushter@gmail.com


*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 621