donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mahboob Rahi
Title :
   Main Chasham Deed Gawah Hoon Ke

میں چشم دید گواہ ہوں کہ ؂


ڈاکٹر محبوب راہیؔ

 

یہ کتاب‘ منی افسانے پر پہلا بڑا کام ہے۔ جس پر مجھے چند سطریں لکھنے کا موقع میسّر آیا ہے۔ مصنف کی کم وبیش ایک چوتھائی صدی کی مسلسل تلاش وجستجو‘ متحققانہ عرق ریزیوں‘ مخلصانہ کاوشوں‘ عاشقانہ سرگرمیوں‘ منفرد تخلیقی تجربوں‘ برسہا برس کے عمیق مطالعے کے نتیجے میں حاصل شدہ تنقیدی بصیرتوں کے دیانتدارانہ تجزیوں نیز مسلسل متجسس افتاد طبع کا ثمر شیریں ہے کہ موصوف تخلیقی راستوں پر میرے بے حد دیرینہ ہمسفر ہیں اور میں تخلیق ‘ تحقیق اور تنقید کے اوبڑ کھابڑ‘ پیچ در پیچ اور سنگلاخ راستوں پر قدم قدم ان کی ماہرانہ اور محتاط تیز گامی نیز نئی نئی منزلوں کی جستجومیں ان کی مسلسل پیشقدمی کا برسوں سے مشاہدہ کررہا ہوں۔ یہ اور بات ہے اور ہم دونوں کے حق میں مفید بھی کہ ہم دونوں دو متوازی راستوں کے راہی ہیں۔ میں شاعری کی شاہراہ عام پر انبوہِ کثیر میں اپنی منفرد شناخت کی تشکیل کے لیے تگ ودو میں مگن بے شماروں میں ایک جبکہ عظیم راہی فکشن کی رہگذر پر چلنے والے چند انفرادیت پسندوں میں محتاط روی‘ اعتدال پسندی‘ استقلال‘ اولوالعزمی اور ثابت قدمی کے ساتھ کامرانی اور سرخروئی کی منزلوں کی جانب مسلسل پیش قدمی کرنے والے اسم بامسمّیٰ عظیم راہی جو اپنی منفرد فکری وفنی عظمتوں کے نقوش رہگذارِادب پر قدم بہ قدم روشن کرتے ہوئے نیز ہر موڑ پر فتح مندیوں کے پرچم نصب کرتے ہوئے فکر وفن کی نو بہ نو منزلوں کی کھوج میں ہمہ وقت سرگرم سفر ہیں اور جلدہی ارباب نقد ونظر میں یکے بعد دیگرے کئی معرکے سر کرکے افسانوی ادب کے کولمبسوں میں سرفہرست اپنا نام درج کروانے والے ہیں۔

کاتب تقدیر نے جن اہم اور منفرد خوبیوں سے عظیم راہی کو نواز رکھا ہے اور جن کی بنا پر وہ اپنے ہم عصروں میں بہتروں سے ممتاز وممیزحیثیت حاصل کرچکے ہیں ان کی حصول علم وفن کے لیے انتھک محنت‘ قابل تقلید لگن اور قابل رشک جذبۂ تلاش وجستجو ہے۔

کوئی پچیس برس کا عرصہ ہورہا ہوگا جب عظیم راہی مجھ سے پہلی بار ملے تھے۔ اخبارات ورسائل میں ان کے افسانچے خاصے تسلسل اور تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہونے لگے تھے۔ میں اس میدان میں ان سے کم وبیش دیڑھ دہائی سینئر تھا ذرائع ترسیل و ابلاغ کے پرجوش استعمال کے معاملے میں چونکہ وہ بڑی حد تک میرے ہم خیال‘ ہم مزاج اور کم وبیش ہم رفتار بھی تھے لہٰذا طبائع کی ہم آہنگی دوچار ملاقاتوں میں صدیوں کے فاصلے طے کرانے میں معاون ثابت ہوئی اور عمروں کے واضح فرق کے باوجود دونوں کے مابین وابستگیوںنے دوستی کے مستحکم اور پائیدار رشتوں کی شکل اختیار کرلی۔ عمروں اور چند ادبی رویوں میں مماثلت کے علاوہ ہمارے درمیان ایک واضح فرق یا فصل ادبی رجحانات کی ہم آہنگیوں کا تھا۔ میں ٹھہرا خالصتاً کلاسیکی مزاج کا حامل‘ روایت کا پاسدار۔ جدیدیت سے ہم رشتگی محض خیالات اور لب و لہجے کی حد تک۔ جدیدیت کے نام پر تجریدیت اور مجنونانہ علامت نگاری سے برگشتگی نے مجھے ہر نئے تجربے سے تقریباً متنفرکر رکھا تھا اور میں اپنے اس انتہا پسندانہ رویے کے تحت علامتی افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچے سے بھی دوری بنائے ہوئے تھا۔ صورت حال کا ایک عجیب پہلو یہ بھی تھا کہ افسانچے سے ناپسندیدگی کے باوجود عظیم راہی جیسے اہم اور قابل ذکر افسانچہ نگار سے نبھ رہی تھی اور خوب نبھ رہی تھی اور اس نبھاؤ کی بنیادی وجہ تھی عظیم راہی کے افسانچوں میں افسانویت یا کہانی پن۔ بالفاظ دگر افسانے کے ان تمام لوازمات کا اہتمام جو بچپن ہی سے میرے ذہن وشعور پر کہانیوں‘ افسانوں ‘ ناولوں یا داستانوں نے اپنی گرفت قائم رکھی تھی۔ میں افسانہ نگار تو خیر معمولی درجہ کا بھی نہیں البتہ افسانے کے قاری کا بھی اگر کوئی مقام ومعیار ہوسکتا ہے تو میں انشاء اﷲ ایک اعلیٰ درجے کے معیاری قاری کو کسوٹی پر بہ ہر اعتبار پورا اتروں گا۔ اس لیے کہ سب افسانے کم و بیش تمام بنیادی لوازمات یا عناصر ترکیبی مثلاً پلاٹ‘ کردار‘ فارم‘ موضوع‘ داد‘ تمثیل‘ علامت‘ اساطیر‘ تکنیک‘ تھیم‘ امیج‘ استعارہ‘ مرقع‘ منظر نگاری‘ مقام‘ ماحول‘ فضا‘ پس منظر‘ ڈرامائیت‘ لب ولہجہ‘ اسلوب اور لسانی ساخت وغیرہ کہاں کہاں۔ کس کس مناسبت سے روبہ عمل لانے میں کیا کیسی اور کتنی فنّی مہارت درکار ہوتی ہے اس کا تھوڑا بہت علم وادراک ضرور رکھتا ہوں اور وہ عنصر جو کہانی کی جان ہوتا ہے اور جس کا میں دل وجان سے والہ وشیدا ہوں وہ ہے کہانی پن اور یہ کہانی پن چاہے داستان میں ہو‘ ناول میں ہو‘ افسانے میں یا افسانچہ میں اس کی مثال ریشم کے کیڑے کی سی ہے جو اپنے ارد گرد تھان کے تھان ریشم بن کر اسی میں اندر ہی اندر اپنے وجود کو ضم کردیتا ہے۔ یہ کہانی پن کہانی کے ایک باب ‘ ایک صفحے‘ ایک پیرگراف یا ایک جملے میں بھی سمویا ہوسکتا ہے اس کے آس پاس واقعاتی تسلسل کے ساتھ چند حقائق‘ کچھ زیب داستاں کے لیے ان تمام کے متناسب اور متوازن اشتراک باہم سے افسانچہ‘ طویل افسانہ‘ ناول یا داستان کے تانے بانے بنے جاتے ہیں ورنہ کہانی کی دنیا تو اسی ایک باب ‘ صفحے‘ پیرگراف یا جملے میں آباد ہے۔

یہ کہانی پن عظیم راہی کے ہر افسانچہ میں زندگی کی تمام تر حقیقتوں ‘ زمینی سچائیوں اور جذباتی حرارتوں کے تمام تر لوازمات سمیت نیز تمامتر فنّی دروبست کے ساتھ اس کی رگ وپے میں خون کی طرح رواں دواں ہوتا ۔ ان کے فن پاروں سے میری قربت‘ وابستگی اور پسندیدگی کا سبب ہوا ورنہ سچائی تو یہ ہے کہ میں بھی ادبی فضاؤں میں گونجتی اس رائے عامّہ میں برابر کا شریک تھا جو افسانچہ کو محض ایک لطیفہ یا اخباری خبرقرار دے کر نیز اسے یکسر رد کرتے ہوئے اس کے ادب میں شمولیت کے سراسر خلاف تھی۔ اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ یہ عوامی رائے بڑی حد تک مبنی بر صداقت بھی تھی کہ بیشتر بوالہوسوں اور سہل پسندوں نے اپنی بے صلاحیتی کے باوصف انگلی کٹاکر شہیدوں میں اپنا نام درج کروانے کی ہوس میں معمولی اخباری خبروں اور بھونڈے بھدّے لطیفوں پر افسانچوں کی سرخیاں چسپاں کرکے اخبارات ورسائل میں پکّی روشنائی میں اپنے نام چھپوالیے اور اس طرح افسانچہ کی رسوائی اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی لیکن عظیم راہی کا معاملہ قطعی مختلف تھا اور ہے۔ خالق حقیقی نے ان کے ذہن کو جن منفرد تحقیقی صلاحیتوں سے معمور کر رکھا ہے۔ ان کی نظر کو جو وسعت اور کشادگی عطاکر رکھی ہے۔ ان کی فکر کو جو گہرائی اور گیرائی دے رکھی ہے ان تمام کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنے تحقیقی سفر کے ابتدائی مراحل سے اپنی فطری تخلیقی صلاحیتوں کے دم پر جوہر دکھلارہے ہیں۔ دس بارہ برس اخبارات ورسائل میں متواتر شائع ہوتے رہنے والے اپنے افسانچوں سے دنیائے ادب میں اپنی تخلیقی شناخت کے ابتدائی نقوش مرتسم کرنے کے بعد ۱۹۸۷ء میں عظیم راہی نے چند منتخب خوبصورت افسانچوں کو ’’پھول کے آنسو‘‘ عنوان کے تحت کتابی صورت میں پیش کردیا جس کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی لیکن افسانچے کے تعلق سے ادبی فضاؤں میں غلط فہمیوں اور افواہوں کے تکدّر کی جو آلودگی پھیل چکی تھی اس کے اثرات ابھی تک مکمل طورپر زائل نہیں ہوئے تھے۔ بے صلاحیت‘ بوالہوس‘ شہرت پسند گھس پیٹھیے تو برساتی مینڈکوں کی طرح چند روز ٹرّانے کے بعد خاموش ہورہے لیکن جن اچھے تخلیق کاروں نے افسانچے کے تئیں پیدا شدہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے اسے فنی استحکام اور صنفی شناخت عطاکرنے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی ان میں عظیم راہی کا نام سرفہرست آتا ہے جن کی تخلیقی معرکہ آرائیوں‘ تحقیقی کارناموں اور تنقیدی سرگرمیوں نے کم وبیش دو دہائیوں تک ادبی ماحول کو گرمائے رکھا‘ موصوف نے طویل افسانوں کے ساتھ ساتھ افسانچوں کی تخلیق وترسیل کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مدتوں علاقائی اخبارات میں مراٹھواڑہ کے افسانہ نگاروں کے تعارف ناموں کے ساتھ ساتھ افسانچہ نمبروں وغیرہ کی تکمیل میں بھی معاونت کی نیز افسانچہ کی حمایت اور مدافعت میں نہایت تسلسل کے ساتھ مضامین لکھنے اور انھیں چھپوانے کے سلسلوں کو بھی زندہ رکھا۔

تحقیق وتنقید کے خارزاروں میں فکر کے تلوے مسلسل لہولہان کرتے ہوئے عظیم راہی کے پاس افسانچوں کے مجموعوں‘ اس صنف پر اخبارات ورسائل کے خصوصی نمبروں‘ مضامین‘ مباحث اور مکاتیب کا معتدبہ ذخیرہ یکجا ہوگیا تو ایک لمبی جست لگاکر تمامتر امکانی بلندیاں سرکرنے اور افسانچہ کے فن کو دنیائے ادب میں مقام ‘ وقار واعتبار عطاکرنے کی دھن ان کے سر میں سمائی اور انھوں نے زیر نظر کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت‘‘ ترتیب دے کر منظر عام پر لانے کا بیڑہ اٹھایا۔ دل میں خلوص تھا‘ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا‘ اپنے مطالعہ کا اعتبار تھا‘ ارادوں میں پختگی تھی‘ حوصلوں میں توانائی تھی لہذا وسائل کے فقدان کے باوجود محض اﷲ کے بھروسے کشتی مسائل کے منجدھار کے حوالے کردی جو متذکرہ مثبت اوامر کی بناپر اس منفرد اور بے مثال کتاب کی صورت میں کامرانیوں سے انھیں ہمکنار کرنے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس کتاب کے وسیلے سے عظیم راہی نے افسانچہ کے تعلق سے عام غلط فہمیوں اور تہمتوں بالخصوص اسے لطیفہ یا اخباری خبر کہہ کر مطعون کرنے کے الزامات کے سدباب کے لیے مضبوط‘ ٹھوس اور ناقابل تردید دلائل کی روشنی میں صحت مند بحثیں کی ہیں۔ بے شمار مثالوں کی مدد سے اپنے دلائل کی صحت مندی‘ معقولیت اور مبنی بر صداقت ہونے کے جواز عظیم راہی نے پیش کیے اس کتاب کی روشنی میں افسانچہ کی وجودیت کا منکر اور اس کا کٹّر سے کٹّر مخالف بھی اس کی اہمیت اور افادیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگا۔

عظیم راہی کی ان تحریروں کا ہر منظر ان کی محنت شاقہ کا گواہ ہے۔ ہر جملہ ان کی محققانہ دیانتداری کا آئینہ دار ہے۔ ہر سطح سے ان کی تنقیدی بصیرت مترشح ہے اور پھر تخلیقی شان ان سب پر مستزاد۔ یہ سارے اوصاف ان کی برسہا برس کی انتھک جدوجہد‘ پرخلوص محنت اور خداداد غیر معمولی اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے نتیجے میں عالم ظہور میں آتے ہیں۔ یہ سب کچھ میں مکمل اعتبار اور کامل اعتماد کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اس تمام منظر نامے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔

اپنے آپ میں منفرد اور مکمل اردو شعر وادب میں افسانچہ کے فن پر اس اولین تنقیدی وتحقیقی کارنامے پر میں عظیم راہی کو بہ صمیم قلب ہدیہ تبریک وتہنیت پیش کرتا ہوں اس پر خلوص دعائیہ پیش گوئی کے ساتھ کہ یہ کتاب انھیں اس فن پر اولیت کا شرف عطاکرنے کے ساتھ ساتھ ان پر نقد وبصیرت کی نوبہ نو راہیں کھولنے کا موجب بھی ہوگی۔

ڈاکٹر محبوب راہیؔ

بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ444401 ،

(مہاراشٹر)


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 704