donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Duniyae Adabo Shayari Me Sanfe Nazuk Ki Hissedari


دنیائے ادب و شاعری میں صنف نازک کی حصہ داری  

 

 زبیر حسن شیخ

 

کہتے ہیں اس کائنات کا ذرہ ذرہ، چرند پرند،  پہاڑ،  درخت ، دریا،  چشمے، سمندر،  آسمان، چاند سورج سب خالق حقیقی کی حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں.  ان  کو حمد و ثنا کے مختلف پیرائے خود خالق حقیقی  کے سوا بھلا اور کون سکھاتا ہوگا، اور خالق حقیقی وہی کچھ سکھاتا ہوگا جو وہ اپنے لئے پسند فرماتا ہوگا. آسمانی صحائف کے طرز بیان و اسلوب  سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے. جھرنے کی جھر جھر، کویل کی کو کو ،  چڑیا کی چہچہاہٹ، بلبل کی آہ و ذاریاں، دریا کی طغیانی، سمندر کا مدو جزر، پہاڑوں کا سکوت،  آتش فشاں کا غضب، باد صبا کی اٹکھیلیاں، ستاروں کی جھلملاہٹ، بارش کی رم جھم،  بجلی کی کڑک اور کلی کی چٹک  الغرض ہر ایک تخلیق اپنی اپنی فطرت اور صنف کے تحت خالق حقیقی کی حمد و  ثنا کرتی رہتی ہے. ان میں کوئی ریختہ تخلیق کرتا ہوگا تو کوئی ریختی، کوئی ترنم میں تو کوئی تحت میں،  کوئی شاعری میں تو کوئی نثر میں، کو ئی یاسیت یا  رجائیت لیے تو کو ئی غنائیت اور جمالیات لیے، کو ئی مرثیہ خواہاں تو کوئی قصیدہ خواہاں. الغرض تمام مخلوق  ادب تخلیق کرنے میں کوشاں ہے. پھر  بھلا اشرف المخلوقات کیوں ان سب سے پیچھے رہے،  خاصکر کہ جب اسے  عقل سلیم، حس لطیف، فکر وسیع اور  نطق فصیح جیسی بے بہا دولت سے نوازا گیا ہے، اور  بلا امتیاز رنگ و نسل اور مرد و زن نوازا گیا ہے. لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ دنیائے ادب و شاعری  میں صنف نازک کی مناسب  حصے داری درج  نہیں ہو سکی..

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں  اور تہذیب و تمدن کے تاریک گوشوں کو روشن بھی کیا ہے،  جس میں علم و ادب کا گوشہ بھی شامل رہا ہے. لیکن ادب ابھی نسائی احساسات کی گہرائیوں سے مکمل طور پر  آشنا نہیں ہوا  ہے،  اور  اسکی مختلف وجوہات رہی ہیں جس پر غور و فکر کرنا ادب  بلکہ تہذیب و تمدن کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے . وہ کیا وجوہات ہیں کہ تاریخ میں ادبا و شعر ا کی فہرست میں خواتین کی نمایندگی اول سو بلکہ اول ہزار میں بھی درج نہ ہو سکی. اس بات سے انکار محال ہے کہ اکثر و بیشتر صنف نازک کے افکار میں پوشیدہ جوہر  کو ابھرنے نہیں دیا گیا  اور  انکے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں نا انصافی ہوتی آ ئی ہے. اور یہ سلسلہ مصری، یونانی اور رومن ہر تہذیب میں جاری رہا  حتی کہ قرآن مجید کا نزول ہوا اور مرد و زن کے درمیان تفرقات و تنازعات کا حل تا قیامت کے لئے  پیش کر دیا گیا..

خالق حقیقی نے اپنے صحائف میں تمام انسانوں کو بلا امتیاز مرد و زن اور  رنگ و نسل اشرف المخلوقات قرار دیا ہے. کار خانہ حیات کو اپنی حکمت سے اکائی کے اصولوں پر نہیں بلکہ قانون زوج پر  قائم رکھا،  اور عموما ہر تخلیق کو  اسی اصول کا پابند کیا.  جہاں مرد کو قوام بن کر بوجھ اٹھانے کے عوض میں برتری عطا کی ونہیں عورت کو  ماں بن کر بوجھ اٹھانے کے عوض میں افضلیت  بھی عطا فرمائی. اس طرح  عورت و مرد کے درمیان انسان کے پیدا کردہ تفاوت کو  ہمیشہ کے لئے ختم کردیا.  مردو زن کو  میزان حیات  کے دو پلڑوں میں رکھکر عدل و توازن  قائم کر دیا. لیکن نا شکرا انسان،  جسے کسی کروٹ چین کہاں کہ اس نے نزول قرآن کے بعد چند صدیوں میں ہی مرد و زن کا تنازعہ کھڑا کردیا. جہاں مرد  نے مظلومی نسواں کے ابواب رقم کرنے میں کو ئی کمی نہیں کی ونہیں عورت نے ان ابواب میں خود اپنے ہاتھوں سے رنگ بھرے، اور آزادی نسواں کے مغربی سراب کا تعاقب کر تصویر کائنات کو بد رنگ کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی.  جبکہ نزول قرآن کے بعد  انسانی تہذیب و تمدن کا وہ دور  شرو ع ہو چکا تھا جہاں انسان جہالت اور ظلم و جبر کی غلامی سے رفتہ رفتہ  آزاد ہورہا تھا.  آزادیء افکار و اظہار  کا سورج  طلو ع ہوچکا تھا اور اسی کے ساتھ ساتھ ہر سو جذبہء خیر کے شامیانے بھی لگ رہے تھے،  تاکہ آزادی کے سورج سے جہاں یہ دنیا منور ہو  ونہیں اسکی تمازت اور حدت سے آنے والے دنوں میں معاشرہ جل کر راکھ ہونے سے محفوظ بھی رہے. یہ وہی دور تھا جسے  اسلامی تاریخ میں قرون خیر سے منسوب کیا گیا.

قرون خیر  میں عورت کو معاشرہ میں جو مقام حاصل تھا اسکی بے شمار مثالیں  قرآن و سنت سے ثابت ہیں. جہاں تک علم و ادب کے شعبہ میں صنف نازک کی نمایندگی کا سوال ہے تو صحابیات کی ایک طویل فہرست ہے. ام المومنین حضرت عائشہ کا ادب و شاعری کے ساتھ تعلق کسی تفصیل کا محتاج نہیں. عہد طفلی سے ہی اپنے والد محترم کی تربیت  اور پھر محسن انسانیت کی زوجیت اور صحبت عظیمہ پا کر  علم و ادب کے بحر بے کراں سے انہوں نے استفادہ کیا تھا. ایک ایسے عظیم باپ کی تربیت میں فن تاریخ، فن شجرہ و نسب اور شعرو ادب پر کمال حاصل کیا تھا جن کا شمار افضل ترین فصحائے عرب میں ہوا کرتا تھا...علم الکلام اور سخن فہمی میں حضرت عائشہ کا کوئی ثانی نہیں تھا اور خلافت راشدہ میں عرب کے مشہورو  معروف ادبا و شعرا نے انکے کمال فن کا اعتراف کیا، جن میں حضرت احنف بن قیس، حضرت حسان، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن مالک  شامل ہیں.  آپ کی دانش کے موتی اور علم الکلام کی ایک ادنی مثال جسکا تذکرہ جناب مائل خیر آبادی کی تصنیف "ام المومنین حضرت عائشہ" میں کیا گیا ہے.  واقعہ افک سے پریشان ہو کر حضرت عائشہ نے ایک جملہ میں اپنے احساسات کی ترجمانی کچھ یوں  کی تھی اور فرمایا تھا "ما اکتحل بنوم" یعنی  (اس جھوٹی افواہ کے بعد) "میں نے آنکھوں میں نیند کا سرمہ نہیں لگایا".  کسقدر  فصیح و بلیغ استعارہ پیش کیا تھا... اسی طرح کے سینکڑوں علمی و ادبی ماہ پارے حضرت عائشہ سے منسوب ہیں....کچھ اسی طرح  حضرت زینب بنت علی کی پرورش بھی باب العلم کے مقدس سائے میں ہوئی تھی،  اور آپکا امام عالی مقام کی شہادت پر  تخلیق کردہ بے باک مرثیہ، محبت اور عقیدت سے منور  ادب کا اعلی ترین نمونہ قرار دیا گیا. جلیل القدر صحابیہ حضرت خنسا کی عہد جاہلیہ میں اپنے بھائی کے قتل پر کی گئی مرثیہ خوانی عربی ادب میں آج بھی اپنی مثال آپ ہے. انکے وہ اشعار جو انہوں نے جنگ قادسیہ میں کہے اور  جس سے ترغیب پاکر ان کے چار فرزندوں نے  جام شہادت نوش فرمایا اسے عربی ادب میں سنہرے حرفوں سے درج کیا گیا ہے...

 قرون خیر کے بعد اگلی چند صدیوں  تک خواتین کا ادب کے ساتھ موہوم سا تعلق قائم  رہا اور انہیں وہ مواقع حاصل نہ ہوسکے جنکی وہ حقدار تھیں.مشرقی  ادب  الف لیلوی دور  سے گزرتا رہا اور ادب کے بے شمار  سرخیل پیدا ہوئے جن میں النفیس، ابن طفیل اور غزالی سے لے کر، رومی، عطاری، فارابی اور خیام تک ایک طویل فہرست ہے جس میں خواتین کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا. کچھ یہی حال مغربی ادب کا بھی رہا.  وقتا فوقتا جبر و قہر  اور روایتوں، رسموں اور رواجوں کی زنجیروں میں عورت کو  جکڑ کر رکھا گیا. بلکہ مغرب میں صنعتی انقلاب کے آتے آتے عورت کو صرف مختلف خدمات  کی علامت سمجھا جانے لگا. دنیا متعدد انقلابات سے گزرتی رہی اور  اسی کے ساتھ ساتھ عورت بھی. 

سترہویں اور اٹھارویں صدی کے دوران  ہندوستان میں جہاں خواتین نے فارسی ادب میں نسوانی افکارات سے شاعری کو آشکار کرایا ونہیں مغرب خاصکر  انگلستان میں این براڈ اسٹریٹ اور اسکے بعد قابل ذکر شاعرات میں ایمیلی ڈکنسن اور کرسٹینا روزیٹی کا نام منظر عام پر  آیا، جنہوں نے شاعری میں خواتین کی  خاطر خواہ نمایندگی درج کیں . حالانکہ انگلستان اور فرانس  کی شہزادیوں کا بھی شاعری کے ساتھ تعلق تاریخ سے ثابت ہے، لیکن وہ کو ئی قابل قدر ادبی  کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہیں. جبکہ ہندوستان میں شہزادی زیب النساء مخفی (دختر اول شہنشاہ عالمگیر)  نے ادب و شاعری کو  نسوانی افکارات و احساسات  سے آشکار کرایا.  یہ اور بات کہ انکا دیوان ایک عرصہ بعد منظر  عام پر لایا گیا. مخفی  کا تاریخی مصرعہ  آج بھی اہل علم و ادب میں مقبول و مستعمل ہے کہ ....در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل (میں اپنے کلام میں مخفی ہوں، جیسے پھول کی خوشبو پھول کی پتیوں میں ہوتی ہیں)   اس مصرع  کے پس منظر میں جو کہانی ہے وہ بھی خاص و عام میں مقبول رہی ہے  اور اسلامی تہذیب کی آئینہ دار بھی.  قصہ مختصر یہ کہ ایران کے شہزادہ نے ایک مصرع  .....در ابلق کسے کم دیدہ موجود" (ابلقی موتی نایاب ہوتا ہے)  تخلیق کر  منادی کرادی تھی کہ مصرعہ  ثانی پیش کرنے والے کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا. اس وقت ایران سے ہندوستان تک سینکڑوں فارسی شعرا حضرات موجود تھے اور عجب نہیں کسی نے طبع آزمائی کی بھی ہو اور قبولیت کا درجہ نہ ملا ہو. لیکن مخفی کا تخلیق کردہ مصرعہ ثانی ....''مگر اشک بتان سرمہ آلود''. (مگر  محبوب کی سرمگی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو)  کو مقبولیت حاصل ہو ئی.  شعر کی تکمیل اور کمال فن اپنی جگہ،  لیکن نسوانی احساسات کی عکاسی اور  نسائی لب و لہجہ کی ایسی پاکیزگی پھر نہ ہی انگریزی ادب کے افکارات میں کہیں نظر آئی اور نہ ہی کسی اور ادب میں.  مذکورہ شعر کی تکمیل میں قابل غور بات یہ تھی کہ مصرع اولی کے پس منظر میں مصرعہ ثانی کے لئے موضوع کی کسی  پابندی یا تنگی کا احتمال بھی نہیں تھا کہ شعرا حضرات اپنے تخیل کی پرواز اور کمال فن کا مظاہرہ نہ کرسکتے ہوں.  ان چار لفظوں '' اشک بتان سرمہ آلود'' نے نسوانی احساسات کی نہ یہ کہ صرف ترجمانی کردی بلکہ اپنے اندر ایک کہانی کو سمیٹ کر رکھ دیا.  یہ الفاظ سرمہ آلود آنکھوں سے گرنے والے موتیوں کی نہیں بلکہ زینت و آرائیش سے مزین ہوکر اپنے محبوب کے انتظار  میں آنسو  بہانے والی ایک  حیادار خاتون کے احساسات کی ترجمانی کر رہے تھے. الغرض ایران کا شہزادہ بے حد متاثر ہوا اور ملاقات و دیدار  کی خواہش بھی ظاہر کر دی. پھر جواب میں مخفی نے جو  شعر تخلیق کیا جسکا مصرعہ اولی  جاوداں ہو گیا  اور اسی کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے کہ 'در سخن مخفی...."  اکثر و بیشتر اس مصرع کا اہل ادب کے علاوہ علمائے دین نے بھی خوب استعمال کیا.  اسطرح مخفی نے ادب میں خواتین کی پر زور نمایندگی درج کی. مخفی کے علاوہ بھی خواتین نے شعر و ادب میں حصہ لیا ہوگا  لیکن تاریخ سے کوئی قابل ذکر نام سامنے نہیں آتا.  حتی کہ میر  کے تلامذہ میں انکی اپنی لخت جگر کا نام بھی شامل رہا ہے، اور  انہوں نے بیگم تخلص رکھ کر  شاعری کے میدان میں اپنی حاضری درج  کی تھی.  لیکن کیا کیا جائے کہ ادب میں مرد کی اجارہ داری نے عورت کی وہ ہمت افزائی نہیں کی جسکی وہ مستحق تھی اور جسکی ادب کو بے حد ضرورت بھی. بیسویں صدی سے قبل اردو شاعری میں نسائی لب و لہجہ کا تصور ہی محال تھا. ریختہ کے مقابل ریختی کسی دشنام  سے کم نہ تھی.  شاعرات کو بھی مردانہ لب و لہجے میں ہی شاعری کرنی ہوتی تھی.  اور تخلیق کے اس کرب کا اندازہ اہل علم و ادب کی نظر سے پوشیدہ بھی نہیں رہا ہوگا. 

اردو شاعری اور خاصکر  غزل کا یہ بھی خاصہ رہا ہے کہ میر و غالب اور انکے معاصر کے کلام میں نسائی لب و لہجہ کی جھلک نظر آتی رہی ہے،  اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب شاعر حضرات خود ہی شاعری میں نسائی احساسات کے خلا کو پر کرتے رہے ہونگے تو بھلا خواتین کو کب یہ کام کرنا تھا. میر و غالب و سودا سے قبل امیر خسرو  کے کلام میں بھی نسائی افکار اور لب و لہجہ صاف عیاں ہے.  یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان شعرائے کرام کی شخصیت کا سوز و گداز  اور  انکے مزاج اور اسلوب کا خاصہ رہا ہو یا انکے دور کی تہذیب کا ماحاصل.  جب خسرو  اور غالب و میر  اور انکے معاصر  اکثر نسائی احسا سات سے مزین شاعری پیش کر کے اس خلا کو پر کرتے رہے ہوں گے تو خواتین کے کرنے کے لئے کیا باقی رہا ہوگا. جو کچھ کسر باقی تھی وہ طوائفوں کی  ادب میں در اندازی نے پوری کردی ہوگی، اس ضمن میں مرزا ہادی رسوا کی تصنیف امراؤ جان ادا کا حوالہ کافی ہوگا.. شریف زادیوں اور رئیس  زادیوں کے لئے شعر و ادب شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا اور عام خواتین کے لئے شاعری صرف تفریح کی حد تک پڑھنے اور سننے کی چیز کہلاتی تھی، اور وہ بھی چھپ چھپ کر چہ مگویوں کے حصار میں. کیونکہ شاعری  میں جو افکارات اور موضو عا ت ہوا کرتے تھے اس میں لہو و لعب اور دین بیزاری کے عناصر بھی شامل ہوا کرتے تھے.  انیسویں صدی کے اواخر تک معاشرہ تہذیبی شکست و ریخت سے دو چار ہوتا رہا اور شریف زادیوں کا شاعری کے میدان میں قدم رکھنا تہذیبی اور معاشرتی روایتوں سے انحراف ہی نہیں بلکہ بغاوت کا اعلان سمجھا جاتا رہا. 

 بیسویں صدی کے آتے آتے کارخانہء عالم کا نقشہ بدل چکا تھا. عالمی سیاست، معاشیات اور  معاشرتی اقدار میں تبدیلیاں ظہور پذیر ہونے لگی تھی  اور  اسی سے متاثر ہوکر  ادب نے بھی کروٹیں بدلی. مختلف تحریکوں اور مکاتب فکر  کا ظہور ہوا اور  اردو ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا. ان تغیرات نے جہاں مرد کو  مختلف مواقع  فراہم کئے کہ وہ  صنف نازک کا استحصال کرے ونہیں عورت نے بھی اپنے مقام افضیلیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی.  الغرض شیطان نے اس بار اہل مغرب کی طویل خونی جنگوں کے عوض "آزادی" کا ایسا نذرانہ پیش کیا کہ پھر  انسان مادر پدر آزاد ہوتا چلا گیا،  اور  اسکا اثر مغربی افکارات کے ذریعہ مشرقی ادب میں بھی داخل ہوتا رہا.  بیسویں صدی ادب و صحافت کے عروج کا دور تھا اور ادبی رسائل نے خواتین کو اپنے افکارات پیش کرنے کے خوب مواقع فراہم کیے.  مختلف مکاتب فکر  نے انسانی مساوات اور آزادی کے نام پر خواتین کو  کچھ یوں راغب کیا کہ چند خواتین اس  شجر 'ممنوعہ' کا ذائقہ چکھنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکی اور انجام سامنے تھا. مغرب میں تو ادب کا مفہوم ہی بے ادب ہوگیا اور ادب کی تعریف میں کچھ یوں تحریف کی گئی کہ ہر اچھا برا فن ادب میں داخل کر دیا گیا.  مشرق اس جدید  ادب سے ایک حد تک محفوظ رہا. چند ادبا و شعرا کے روایتوں سے انحراف کے باوجود اردو، عربی اور  فارسی ادب آج بھی اپنی روایتوں کا پابند ہے. اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک عربی،  اردو اور فارسی ادب کا نہ ہی لباس فاخرانہ داغدار ہوا  اور نہ ہی ادبا و شعرا  مغربی ادبا و شعرا کی طرح  جامہ سے باہر ہوئے، اور جو حضرات کبھی جامہ سے باہر ہوئے بھی تو ادب کے لباس فاخرانہ نے انہیں بے پردہ نہ ہونے دیا.

بیسویں صدی نے جہاں آزادیء نسواں کے قلم سے مظلومیء نسواں کے نئے نئے ابواب رقم کیے ونہیں خواتین کی ادب میں نمایندگی کو  طوعا و کرہا قبول کر لیا گیا.  اردو ادب میں خواتین کے بے شمار نام ہیں جنہوں نے نثر ، مضمون، افسانہ اور  ناول نگاری کے علاوہ ادب کے دیگر شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے، کبھی حقائق کو بے پردہ کر کے تو کبھی افکارات و احساسات  کو،  کبھی روایتوں کی زنجیروں سے ہاتھ چھڑا کر تو کبھی مغربی افکارات کی زنجیروں میں قید ہو کر. لیکن شاعری میں صدی کے نصف تک بھی کسی خاتون کی قابل ذکر کارگردگی کا کوئی سراغ نہیں ملتا. اکا دکا خواتین کے نام ہیں جنہوں نے شاعری کے بھاری بھرکم اوزان کو  کف نازک پر رکھ کر پرکھنے کی ناکام  کوشش کی تھی. اسی دور میں علیگڈھ میں جناب خلیل الرحمن اعظمی نے محترمہ امتہ الروف نسرین کے ایک شعر پر  انہیں خوب داد و تحسین سے نوازا ، اور اپنی تصنیف نیا عہد نامہ کے دیباچہ میں اس کا تذکرہ بھی کیا. وہ داد و تحسین  بلآخر  انکے وسیع و عریض حلقہ ادب کے سروں پر سوار ہو کر دنیائے ادب میں علیگڈھ سے دلی، بمبئی اور پھر کراچی تک جا پہنچی...کسی شاعرہ کے اک شعر پر داد ملنا اور وہ بھی ایسی داد!  اور اس پر طرا یہ کے ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت سے جسے اردو ادب کا ہر ادنی و اعلی جانتا ہو، کسی بھی شاعرہ کی شہرت کے لئے کافی تھا. وہ شعر تھا...."آئینہ دیکھ کر خیال آیا ....تم مجھے بے مثال کہتے تھے".  اسکے بعد اردو ادب کے چمن نے نسائی لب و لہجہ کی شاعری کے بے شمار گل و لالہ و نسرین و  گلاب کھلائے. پھر  شاعری لغوی اور معنوی دونوں اعتبار سے نسوانیت کی عکاسی کرنے لگی، فی الحقیقت اسکے بغیر  اردو شاعری کی نزاکت و لطافت کا  حسن کبھی دو بالا نہ ہوا ہوتا. بطور نمونہ ذیل میں نقل کیے گئے چند ایسے اشعار ہیں جن پر اردو ادب بجا طور پر فخر کر سکتاہے،  اور جو  اعلی تخلیقی معیار،  پاکیزہ نسائی افکارات اور خالص نسوانی لب و لہجہ کی عکاسی کرتے ہیں ؛

کبھی دنیا کے اندر کچھ نظر آتا نہیں مجھکو...........کبھی اپنے اندر ہی ایک دنیا دیکھ لیتی ہوں.

(نجمہ تصدق)

میں آئینہ پہ بھلا اعتبار کیسے کروں....مجھے تو صرف اسی کی نگاہ نے دیکھا

(ادا جعفری)

کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی ......میں چوک جاوں تو وہ انگلیاں جلا لے گا

(عزیز  بانو)

گڑیا مری سوچ کی چھنی کیا....بچی کی طرح بلک رہی ہوں

تخلیق جمال فن کا لمحہ !.......کلیوں کی طرح چٹک رہی ہوں 

میں اس سے کھل کے ملوں، سوچ کا حجاب اترے...........وہ چاہتا ہے مری روح کا حجاب اترے

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا ....وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی ........اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں.....پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک

صدف میں  اتروں تو پھر میں گہر بھی بن جاؤں ......صدف سے پہلے مگر حلقہ نہنگ میں ہوں

 (پروین شاکر )

یہ میرے بچپن کی سہیلی میرے غم کی ساتھی ہے

کیوں میری کھڑکی سے لگ کر روتی ہے برسات سنو.

(شبنم)   

محولہ بالا شاعرات، خاصکر پروین شاکر صاحبہ  نے ادب میں نہ یہ کہ صرف صنف نازک کی بھر پور نمائندگی کی بلکہ نسائی لب و لہجہ سے ادب میں رحجان سازی بھی کی،  اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں خواتین نے بھر پور شراکت درج کی،  اور پھر شاعری و ادب کی اکثر اصناف میں صنف نازک کی نزاکتوں نے  نور بھر دیا. برصغیر  میں شاعرات کی ایک طویل فہرست ہے.  بلکہ، بقول خالد علوی صاحب (بحوالہ مضمون؛ پاکستان کی غزل کے نئے رحجانات".... راقم الحروف نے  اپنے مطالعہ میں اس مضمون سے بھی استفادہ کیا ہے):

" اگر  مبالغہ نہ سمجھا جا ئے تو  میں کہوں گا کہ ہندوستان میں غزل پڑھنے اور سمجھنے والی خواتین کی تعداد سے زیادہ خواتین پاکستان میں شاعری کر رہی ہیں".

 لیکن ادب و شاعری میں خواتین کا نام اول سو  ناموں کی فہرست میں اب بھی نہیں، کیوں ؟.  یہ سوال آج بھی اہل ادب اور ادب نواز خواتین و حضرات  کا منہ چڑاتا ہوگا.

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1286