donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jamal Owaisi
Title :
   Ghazal Me Aik Nayi Awaz : Mansoor Khushtar


جمال اُویسی

محلہ فیض اللہ خاں

خاں صاحب کی ڈیوڑھی، پوسٹ آفس لال باغ،

دربھنگہ۔


غزل میں ایک نئی آواز: منصورخوشتر

 

بہاروں پر تسلط ہے خزاں کا
برا دن آگیا ہے گلستاں کا
مقدر ہے ہمارا بے پناہی
یہاں پر ذکر مت کیجے اماں کا
زندگی پاتی اسی سے حوصلہ
تم غم دوراں سے گھبراتے ہو کیوں
تیرگی کو روشنی کہتے ہیں جو
وہ نہیں سمجھیں گے سمجھاتے ہو کیوں
نئی تہذیب ہی نے کی ہے ’’نیورو سرجری‘‘ جو
ہمارا خود، ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے
سڑک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رُکتا نہیں ہے

    یہ اشعار منصورؔ خوشتر کے زیرطبع پہلے شعری مجموعے ’’صلائے محفل خوباں‘‘سے لئے گئے ہیں۔ ان اشعار میں جو نئی حسیت کار فرما ہے اس سے بحث کرنے سے پہلے فراقؔ صاحب کا شعر درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ فراقؔ صاحب کہتے ہیں:

دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز

    زمانے میں جو انقلابات پیدا ہوتے رہتے ہیں اس کو انسان اپنی بصارت سے ہزار کوششوں کے باوجودنہیں دیکھ سکتا، تاوقتیکہ وہ اپنی بصیرت مندی اپنی آنکھ میں شامل کرکے مرورِ ایام کو نہ دیکھے۔ تب جاکر اسے محسوس ہوگا کہ زمانہ نے ایک نہیں، دو نہیں کئی کروٹیں بدل لی ہیں اور کئی انقلاب آکر سروں سے گذر چکے ہیں۔ اسی رمز کی طرف فراقؔ اشارہ کررہے ہیں۔ غزل کی ساخت ایسی ہے کہ اس میں غیر محسوس طریقہ سے نئے مضامین داخل ہوجاتے ہیں اور عصر رواں کے اسکیچز بننے لگتے ہیں۔ جدیدیت کے زمانے میںنئے انسانی معاشرہ اور مسابقتی نظام کو غزل نے کچھ اس طرح پیش کیا تھا۔

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیںکھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

 (ندا فاضلی)

یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
چہروں کے سمندر سے گزرتے رہے پھر بھی
اک عکس کو آئینہ ترستا ہے ہمارا

(شہریار)

جو گلے ملوگے تپاک سے کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اک سمندر کے پیاسے کنارے تھے ہم اپنا پیغام لاتی تھی موج رواں
آج دو ریل کی پٹریوں کی طرح ساتھ چلنا ہے اور بولنا تک نہیں

(بشیربدر)

    غزل بدل جاتی ہے۔ غزل کو بدلنا پڑتا ہے۔ جدیدیت کے زمانے میں مشینی زندگی میں پستی ہوئی انسانیت شاعری کا موضوع بنی تھی۔ فرد کی آزادی اور پدری تصورات کے درمیان ایک جنگ برپا تھی۔ اس کے علاوہ فرد کی تنہائی جدید غزل کا سب سے بڑا موضوع بن کر سامنے آئی۔

     Father Images کی شکست و ریخت کے بعدمذہبی قدروں پر سے ایمان اٹھ جانے کا گمبھیر مسئلہ بھی سامنے آیا جس کے بڑے نظریہ داں عالمی پیمانہ پر فرانز کافکا، کامیو اور ژاں پال سارتر تھے۔ وجودیت جدیدیت کی اساس تھی۔ پھر زمانہ تیزی سے بدلا۔ ملک میں ایمرجنسی لگنے کے بعد ۱۹۷۶/۱۹۷۷ء کے زمانے میں غزل کی شاعری میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں۔ غزل میں ابہام اور دبیز علامتوں کے استعمال کی جگہ کھلا ڈلا بیانیہ لیکن پر تفکر انداز و اسلوب سامنے آنے لگا۔ چنانچہ ۱۹۸۰ء  کے بعد جو شاعروں کی نسل آئی اس میں ہر شاعر کا لہجہ ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف تھا بلکہ منفرد شناخت کے ساتھ سامنے آیا۔ ابتک اس نسل کے ادبی رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لیکن غزل اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بدلنے لگی ہے۔ ۱۹۸۰ء کی ادبی نسل نے جس شعوری وارفتگی کو داخل غزل کیا تھا اس کی توسیع ہوتی دکھائی دے رہی ہے، گرچہ ایک خسارے کے ساتھ۔ غزل کے فن کو جس قدرمحفوظ رکھنا ضروری ہے اب اس کی پاسداری نئے لوگ کرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ غزلوں میں اب صرف مسائل کا بیان ہورہا ہے۔ 

    منصورخوشتر کی غزلوں میں کچھ نئی باتیں میں نے محسوس کی ہیں۔ اردو شاعری میں غم دوراں اور غم جاناں کا ذکر بہت بار ہوا ہے اور ان مضامین سے جو معنی مراد لئے جاتے ہیں وہ گھسے پٹے ہیں۔ منصورخوشتر نے اپنے ایک شعر میں بالکل نئی بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں غم دوراں سے گھبرانا نہیں چاہئے کیوں کہ زندگی غم دوراں سے ایک نیا حوصلہ حاصل کرتی ہے۔ اس طرح کا مثبت پہلو پہلے کے شعراء پیش کرنے سے قاصر تھے۔ اسے ہم منصورخوشتر کی نسل میں آئی تبدیلی فکر سے موسوم کرسکتے ہیں۔ سوچنے کا نیا انداز سامنے آیا ہے۔ تازہ کار نسل زندگی کے بہت سے معلوملوں میں حوصلہ مند دکھائی دیتی ہے۔ منصورخوشتر نے عملی سطح پر زندگی کرنے اور معاملات زندگی کو سمجھنے کے بعد انہیں حل کرنے کی جو مثال پیش کی ہے وہ بعض اپنی پیٹھ ٹھونکنے والوں کے لئے تازیانۂ عبرت بھی ہے۔

    میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ منصورخوشتر کا شعور غزل کے سلسلے میں کتنا محتاط اور تدبر آشنا ہے لیکن اس نوجوان کی غزل سے وارفتگی و وابستگی فطری دکھائی دیتی ہے۔ وہ اکثر شعری و ادبی نشست کا اہتمام کرتے ہیں۔ مقامی اور عالمی سطح کے مشاعروں کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے وہ چیئرمین بھی ہیں۔ صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ لیکن وہ ایک معالج بھی ہیں۔ منصورخوشتر کی عمر کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ اس فرد کے اندر کئی شخصیتوں کا اجتماع ہے۔ ان کے ریڈی میڈ کپڑوں کے دو شو روم ہیں۔ ان کا حسن اخلاق کاروبار کی سطح پر دیکھنے لائق ہے۔ وہ اپنا وقت نکال کر ادبی صحافت کو بھی دیتے ہیں۔ وہ برسوں سے دربھنگا ٹائمس نکال رہے ہیں۔ یہ بھی ان کا ایک جنون ہے۔ پھر وہ اکتساب شعر کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس اکتساب کی تیشہ زنی سے ان کے اندر ایک سیل رواں ہوجائے گا۔ غزل کی شاعری خلوص اور محنت دونوں چاہتی ہے۔ یہ ایک طرف روزن کرکے دیکھنے کی بجائے خلائے بسیط میں کھو جاتی ہے اور ’’خودی میں ڈوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں’’ کے مصداق زندگی کے قیمتی تجربات سے لیس ایک نئے قالب میں ڈھل کر سامنے آتی ہے۔ منصورخوشتر غزل کی فنی ریاضت کے بعد جب شعر کہیں گے تو آج کے مقابلہ میں زیادہ پختہ اور بامعنی شعر کہیں گے کیوں کہ ان کی غزل سے باخبری اور ہوشمندی کا پتا ان کے یہ اشعار دیتے ہیں۔

مسکرا کر اُس نے دیکھا ہی تو تھا
دل میں کیوں ہے شورشِ طوفان کچھ
تو کسی کی بیاض ہے جیسے
ہر غزل انتخاب کیا کہنا
عشق صد جامہ چاک اپنی جگہ
حسن زیر نقاب کیا کہنا
خوش رہئے میں شہر وفا سے جاتا ہوں
اپنے کئے پر آپ مگر شرمائیں گے
اُس نے دشمن کو بھی دی میرے برابر کی جگہ
مانا ربط غیر بھی میرا تو رشتہ اور تھا

    ان اشعار میں بے ساختگی ہے اور بے ساختگی کے ساتھ زبان کی فصاحت بھی متوجہ کرتی ہے۔ اشعار میں روانی اس کے سبب ہے۔ غور کیجئے تو یہ غزل کے Assetsہیں۔ غزل کے شاعر کو نیا مضمون بہت متوجہ بلکہ بیتاب کرتا ہے۔ لیکن نئے مضمون کو غزل کی ساخت میں کامیابی کے ساتھ ڈھال لینا ہی فن کہلاتا ہے اور تبھی جاکر غزل کامیاب بھی ہوتی ہے۔ غزل کی کتابی ساخت شاعر کا بہت سخت امتحان لیتی ہے۔ ابھی منصور خوشتر محفل یار کے مضامین سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کا یہ مجموعہ ایک خاص نوع کی شاعری کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے لیکن مجموعہ میں بعض نکیلے اشعار اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد آشوب زندگی کو وجدانی سطح پر محسوس کریں گے اور غزل میں نئی آواز کے ساتھ سامنے آئیں گے۔

٭٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 481